کی نسبت کچھ ہی کہیں لیکن جو لوگ انصاف پسند اورکشادہ دل ہیں وہ کبھی محمدؐ صاحب کی اِن بے بہا خدمات کو جووہ نسل انسان کے لئے بجا لائے بھلاکر احسان فراموش نہیں ہوسکتے وہ اپنی فضیلت کا ایسا جھنڈا کھڑا کر گئے ہیں جس کے نیچے اب تیرہ۱۳ چودہ۱۴ کروڑ دنیا کے آدمی پناہ گزین ہیں اور اُن کے نام پر جان دینے کے لئے مستعد کھڑے ہیں۔ قریش نے ایک مرتبہ یہ سوچا کہ محمدؐ صاحب کو کوئی زبردست دنیاوی لالچ دے کر اس کام سے باز رکھیں چنانچہ پہلے اُن کے وکیل نے آپ کے پاس آکربہت سے مال اور دولت کے طمع دیئے مگر آپ نے کچھ توجہ نہ کی اور پھر یہ بھی کہا کہ ہم آپ کو اپنا سردار اور پیشوا مقرر کر لیتے ہیں اور آخر کو جب یہ بھی نہ مانا گیا تو یہ کہا کہ ہم آپ کو اپنا بادشاہ قبول کرتے ہیں مگر آپ نے اس کے جواب میں قرآن شریف کی چند آیتیں سنائیں جو خدا کی توحید پر مشتمل تھیں۔ آخر قریش کا قاصد ناکام واپس آیا۔
اور جب قریش اپنے اس حیلہ میں کامیاب نہ ہوئے تو انہوں نے مسلمانوں کو بے انتہا اذیتیں اور تکلیفیں پہنچانی شروع کیں۔ عزیزوں کا لہو سفید ہوگیا۔ سگا چچا ابولہب دشمن جانی بن گیا۔ سگی چچی کا یہ حال تھا کہ وہ بہت سے کانٹے گو کھڑو سمیٹ لیتی اور جن جن راہوں سے آپ گذرتے وہاں وہ گو کھڑو اور کانٹے بکھیر دیتی اور آپ کے پاؤں زخمی ہوجاتے تب آپ بیٹھ جاتے اپنے پاؤں سے بھی کانٹے نکالتے اور راستہ میں سے بھی دور کرتے تا دوسرے چلنے والے بھی اُس اذیّت سے بچیں۔ آپ جب وعظ کہنے کے لئے کھڑے ہوتے اور قرآن مجید پڑھتے تو لوگ غل مچاتے تا کوئی شخص اُن کی بات کو نہ سن سکے۔ آپ کو کہیں کھڑا نہ ہونے دیتے اور جب آپ تنگ آکرچلے جاتے تو اُن پر پتھر اور ڈھیلے پھینکے جاتے یہاں تک کہ آپ کے ٹخنے اور پنڈلیاں زخمی ہوجاتیں۔
ایک دفعہ چند دشمنوں نے آپ کو تنہا پاکر پکڑ لیا اور آپ کے گلے میں پٹکا ڈال کر اُسے مروڑنا شروع کیا۔ قریب تھا کہ آپ کی جان نکل جائے کہ اتفاق سے ابوبکر آنکلے اور انہوں نے