اور غارت میں درندوں سے بڑھ کر تھے اور عیاشی اور غفلت کا کوئی حساب نہ تھا اور ہر ایک حرام کو حلال سمجھ رکھا تھا۔ غرض جس وقت عرب کی یہ حالت تھی جو اوپر مذکور ہوئی تب حضرت محمدؐ صاحب عرب کے ایک مشہور اور معروف قبیلہ قریش کی شاخ بنی ہاشم میں پیدا ہوئے اور چونکہ آپ کے والدین بچپن میں ہی فوت ہوچکے تھے اِس لئے آپ کو اس قدر تعلیم پانے کا بھی موقع نہ ملا وہ ماں باپ کے زیر سایہ اپنی مادری زبان کو سیکھ سکتے بلکہ پیدا ہوتے ہی دودھ پلانے کے لئے ایک دیہاتی اور گنوار دایہ کے سپرد کئے گئے اور دن رات ایک گنواری زبان سے اُ ن کو واسطہ پڑا شاید اس میں یہی حکمت خدا تھی کہ جو شخص جو ان ہوکر کلام کامعجزانہ نمونہ پیش کرنے والا تھا وہ بچپن میں یوں گنواروں اور چرواہوں میں پلے تاخدا کی قدرت کا نمونہ ظاہر ہو۔ خدا نے جو اُن پر پیدا ہوتے ہی یہ مصیبتیں ڈالیں تو شاید اس میں یہ حکمت تھی کہ تا اُن کے مزاج میں اعلیٰ درجہ کاحلم اور صبر اور رحم پیداہو جائے اور تا وہ ہمدردی بُردباری اور غم خواری سے اپنے ہم وطنوں کو چاہِ گمراہی سے باہر نکالیں۔ آپ نیپینتیس۳۵ برس کی عمر میں ہمدردی نوع انسان کا یہ نمونہ دکھایا کہ زید بن حارث کسی لڑائی میں پکڑا گیا تھا اوروہ غلام بناکر خدیجہؓ کے بھتیجے کے ہاتھ فروخت کردیا گیا تھا اور خدیجہؓ کے بھتیجے نے اُس غلام کو اپنی پھوپھی کی نذر کیا تب آپ نے اُس غلام کو خدیجہ سے مانگ کر آزاد کردیا اور آپ کادل اپنے ملک کو تاریکی اور جہالت میں ڈوبا ہوا دیکھ کر بہت درد مند رہتا تھا اور عورتوں کے حال زار اور معصوم لڑکیوں کو زندہ درگور ہوتے ہی دیکھ کر جگر پاش پاش ہوتا تھا۔ فی الواقع آنحضرت کی ذات سے جو جو فیض دنیا کو پہنچے اُن کے لئے نہ صرف عرب بلکہ تمام دنیا کو اُن کا شکر گذار ہونا مناسب ہے۔ کون کونسی تکلیفیں ہیں جو اس بزرگ نے نسل انسان کے لئے اپنے اوپر برداشت نہیں کیں اور کیا کیا مصیبتیں ہیں جو اُن کو اس راہ میں اٹھانی نہیں پڑیں۔ عرب جیسے ایک وحشی اور کُندۂ ناتراش ملک کو توحید کی راہ دکھانا اور اُن بدیوں سے روکنا جو عادت میں داخل ہوگئی تھیں کچھ سہل کام نہ تھا تنگ دل اور متعصب لوگ ایسے بزرگ