کافرؔ وں سے شروع ہوئی اور اسلام میں بطور سزا کے یہ حکم جاری ہوا اور اُس میں بھی آزاد کرنے کی ترغیب دی گئی۔ اب ہم اس جگہ مذکورہ بالا بیان کی شہادت کے لئے ایک برہمو صاحب کی کتاب سے ذیل میں چند عبارتیں اختصار کے ساتھ نقل کرتے ہیں۔ برہمو صاحب کا نام پَرکاش دیوجی ہے جو برامھ دھرم لاہور کے پرچارک ہیں اور کتاب کا نام سوانح عمری حضرت محمد صاحب ہے اور اِس پُر آشوب زمانہ میں کہ ہر ایک فرقہ خواہ آریہ ہیں خواہ پادری صاحبان دیدہ دانستہ کئی طور کے افترا کرکے ہمارے سیّد و مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور اسلام کی تحقیر کو بڑا ثواب کا کام سمجھ رہے ہیں ایسے وقت میںآریہ قوم میں سے ایسا منصف مزاج پیدا ہونا جو برہمو مذہب رکھتے ہیں نہایت عجیب بات ہے مؤلف کتاب نے اپنی دیانت داری اور انصاف پسندی اور حق گوئی اور بے تعصبی کا عمدہ نمونہ دکھلایا ہے۔ میرے نزدیک مناسب ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ ایک ایک نسخہ اس کتاب کا خرید لیں قیمت بھی بہت کم ہے اوروہ عبارتیں برہمو صاحب کی کتاب کی خلاصہ کے طورپر یہاں لکھی جاتی ہیں اوروہ یہ ہیں*۔
اہل عرب آنحضرت ؐ کے ظہور کے وقت میں بہت ہی بدرسوم کے مروّج تھے چنانچہ فسق و فجور رہزنی قزاقی وغیرہ اس درجہ تک اُ ن میں بڑھی ہوئی تھی کہ اُن کے حالات پڑھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ یتیموں کا مال کھا لیتے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرتے تھے۔ شراب خوری کی یہ کثرت تھی کہ بچہ نے دودھ چھوڑا اور شراب پینی شروع کی۔ مرد جس قدر چاہتا تھا عورتیں کر لیتا تھا جب چاہتا تھا بلا عذر چھوڑ دیتا تھا۔ کینہ۔ حسد۔ بغض بہت بڑھا ہوا تھا۔ بُت پرستی سے کوئی گھر خالی نہ تھا اور مکہ گویا ایک بُت پرستی کا تیرتھ بنا ہوا تھا اور جتنے اُن لوگوں کے چلن تھے سب وحشیانہ تھے اور لوٹ اور مار میں یگانہ تھے قتل
*حاشیہ ۔ برہموصاحب کی کتاب میں ایک دو جگہ خفیف غلطی پائی گئی ہے یہ بشریت ہے ۔مگر یہ تو ممکن نہیں تھا کہ ایک مسلمان کی طرح ان کی تقریر ہوتی ۔ ایسی صورت میں شبہات پیدا ہوتے اور کچھ اثر نہ ہوتا ۔ منہ