کافروں کی لڑائی میں قید ہوکر تمہارے قبضہ میں آئی ہوں۔ یہ خدا کاحکم تحریری ہے جو تم پر لازم کیا جاتا ہے۔ ان عورتوں کے سوا جو ذکر ہوچکیں باقی سب عورتیں تم پر حلال ہیں مگر اس شرط سے کہ وہ تعلق صرف شہوت رانی کا ناجائز تعلق نہ ہو بلکہ نیک اور پاک مقاصد کی بنا پر نکاح ہو۔ یہ ہیں وہ عورتیں جو خدا کے قانون نے مسلمانوں پر حرام کردی ہیں اوریہ محض خدا کا حق ہے کہ جن چیزوں کو چاہے حلال کرے اور جن چیزوں کو چاہے حرام کرے اورؔ وہی اپنے مصالح کو خوب جانتا ہے۔ اب آریوں کا خدائی قانون میں خواہ نخواہ بغیر کسی حجت اور روشن دلیل کے دخل دینا صرف شوخی اور کمینگی ہے۔ اور ہمیں تو تعجب آتا ہے کہ جو لوگ حیوانات کا پیشاب اور گوبر بھی کھا جاتے ہیں ا ورحرام حلال کا یہ حال ہے کہ اپنی بیوی کو بنام نہاد نیوگ دوسروں سے ہمبسترکراتے ہیں وہ اسلام پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قریبی رشہ داروں سے کیوں نکاح کیا جاتا ہے؟ اس کا یہی جواب ہے کہ وہ خدا کے نزدیک ایسے قریبی نہیں ہیں جو تمہارے خیال خام میں قریبی معلوم ہوتے ہیں۔ جن کو خدا نے قریبی ٹھہرایا ہے اُن کا ذکر اپنی کتاب میں کردیا ہے اوروہ نکاح حرام کئے گئے ہیں جیسا کہ ابھی ہم ذکر کرآئے ہیں مگر اس کا کیا جواب ہے کہ وید کے پرمیشر نے ایک بڑا اندھیر مارا ہے (جس کی وجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آریہ لوگ بسا اوقات ماؤں اور بہنوں سے بھی شادی کر لیتے ہیں) اور وہ تناسخ یعنی آواگون کادھوکا دینے والا طریق ہے کیونکہ جس حالت میں دوبارہ آنے والی رُوح کے ساتھ پرمیشرکی طرف سے کوئی ایسی فہرست پیٹ میں سے ساتھ نہیں نکلتی جس سے معلوم ہوکہ فلاں عورت سے پیدا ہونے والی درحقیقت فلاں شخص کی ماں ہے یا دادی ہے یا نانی ہے یا بیٹی ہے یا بہن ہے تو اس میں کیا شک ہے کہ بسا اوقات ایک آریہ شادی کرنے والا اپنی ماں سے نکاح کرلیتا ہوگا؟یا بیٹی سے یا بہن سے یا دادی سے۔ اگر کہو کہ یہ تو پرمیشر کا قصور ہے ہمارا قصور نہیں تو اس کاجواب یہ ہے کہ پھرتم ایسے پرمیشر پر کیوں ایمان لاتے