پر جا اور اس دریا کو کہدے کہ میں تیرے آگے اُس فقیر مجرد کا واسطہ ڈالتا ہوں جو تیرے کنارہ پر بیٹھا ہے جس نے ساری عمر میں کسی عورت کو چھوا بھی نہیں۔ پس اگر یہ بات سچ ہے تو مجھے راہ دیدے۔ جبؔ اس شخص نے یہ پیغام اس دریاکو پہنچایا تو یہ سنتے ہی دریا نے راہ دے دی اور وہ دریا سے پار ہوگیا۔ اور آتے وقت پھر وہی مشکل تھی اور دوسرے کنارہ پر اور فقیر بیٹھا ہوا تھا جو ہر روز ایک دیگ پلاؤ کی کھاتا تھا یہ شخص اُس کے پاس گیا اور اپنی مشکل بیان کی اُس نے کہا کہ دریا کو میری طرف سے جاکر کہہ دے کہ میں تیرے آگے اس فقیر کاواسطہ ڈالتا ہوں جو تیرے کنارہ پر بیٹھا ہے جس نے کبھی ایک دانہ اناج کا بھی نہیں کھایا اگر یہ بات سچ ہے تو مجھے راہ دیدے تب فی الفور دریا نے راہ دے دی ؂ تو مردان آن راہ چوں بنگری کہ از کینہ و بغض کور و کری چہ دانی کہ ایشان چسان می زیند زدنیا نہان در نہان می زیند فداگشتہ در راہ آن جان پناہ زکف دل زسر اوفتادہ کلاہ ولے ریش رفتہ بکوئے دِگر زتحسین و لعنِ جہاں بے خبر چوبیت المقدس دردن پُر زتاب رہا کردہ دیوار بیرون خراب اور مضمون پڑھنے والے نے ایک یہ اعتراض پیش کیا کہ قرآن شریف کی تعلیم کی رُو سے قریبی رشتہ داروں میں شادی ہوتی ہے مگر میں نہیں جانتا کہ ایسا لغو اعتراض کیوں کیا گیا ہے ۔یوں تو نوعِ انسان سب آپس میں قریبی ہیں اسی وجہ سے ایک دوسرے پر حق رکھتے ہیں باقی یہ بحث کہ نہایت قریبی کون کون ہیں جن کا باہم نکاح حرام ہے سو خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تفصیل سے بتلا دیا ہے اور وہ آیات یہ ہیں