یا یہ کہ وہ اس ذریعہ اپنی صالح اولاد چھوڑ جائیں گے تو اُن کا یہ فرض ہے کہ وہ ضرور اس بابرکت کام سے حصہ لیں خدا کی جناب میں بدکاری اور بدنظری ایسے ناپاک گناہ ہیں جن سے نیکیاں باطل ہو جاتی ہیں اور آخر اسی دُنیا میں جسماؔ نی عذاب نازل ہو جاتے ہیں۔ پس اگرکوئی تقویٰ کے محکم قلعہ میں داخل ہو نے کی نیت سے ایک سے زیادہ بیویاں کرتا ہے اس کے لئے صرف جائز ہی نہیں بلکہ یہ عمل اس کے لئے موجب ثواب ہے۔ جو شخص اپنے تئیں بدکاری سے روکنے کے لئے تعدّدِ ازواج کا پابند ہوتا ہے وہ گویا اپنے تئیں فرشتوں کی طرح بنانا چاہتاہے۔ میں خوب جانتا ہوں کہ یہ اندھی دنیا صرف جھوٹی منطقوں اور جھوٹی شیخیوں میں گرفتار ہے وہ لوگ جو تقویٰ کی تلاش میں لگے نہیں رہتے کہ کیونکر حاصل ہو اور تقویٰ کے حصول کے لئے کوئی تدبیر نہیں کرتے اور نہ دعا کرتے ہیں اُن کی حالتیں اُس پھوڑے کی مانند ہیں جو اُوپر سے بہت چمکتا ہے مگر اُس کے اندر بجز پیپ کے اور کچھ نہیں۔ اور خدا کی طرف جھکنے والے جو کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہیں کرتے وہ تقویٰ کی راہوں کو یوں ڈھونڈتے پھرتے ہیں جیسا کہ ایک گدا روٹی کو۔ اور جو لوگ خدا کی راہ میں مصیبتوں کی آگ میں پڑتے ہیں جن کا دل
ہر وقت مغموم رہتاہے اور خدا کی راہ میں بڑے مقاصد مگر دشوار گذار اُن کی رُوح کو تحلیل کرتے اور کمر کو توڑتے رہتے ہیں اُن کے لئے خدا خود تجویز کرتا ہے کہ وہ اپنے دن یا رات میں سے چند منٹ اپنی مانوس بیویوں کے ساتھ بسر کریں اور اس طرح پر اپنے کو فتہ اور شکستہ نفس کو آرام پہنچا ویں اور پھر سرگرمی سے اپنے دینی کام میں مشغول ہو جاویں۔ ان باتوں کو کوئی نہیں سمجھتا مگر وہ جو اس راہ میں مذاق رکھتے ہیں۔میں نے ہندوؤں کی ہی پُستک میں یہ ایک حکایت پڑھی ہے کہ ایک شخص کسی بہت ضروری کام کے لئے کسی طرف جاتا تھا اورراہ میں اس کے ایک خونخوار دریا تھا اور کوئی کشتی نہیں تھی اور جانا ضروری تھا۔ جب وہ دریا کے کنارہ پر پہنچا تو ایک فقیر کو اُس نے دیکھا جس کی سو۱۰۰ بیوی تھی تب اُس نے اُس کی خدمت میں عرض کی کہ آپ دعا کریں کہ میں کسی طرح اس دریا سے پار ہو جاؤں۔ اس فقیر نے کہا کہ تو دریا کے کنارہ