ظلم ہے اور طریق اعتدال کے برخلاف ہے یہ اُن لوگوں کاکام ہے جن کی تعصّب سے عقل ماری گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ حقوقِ عباد کے متعلق ہے اور جو شخص دو بیویاں کرتاہے اس میں خدا تعالیٰ کاحرج نہیں اگر حرج ہے تو اس بیوی کاجو پہلی بیوی ہے یادوسری بیوی کا۔ؔ پس اگر پہلی بیوی اس نکاح میں اپنی حق تلفی سمجھتی ہے تو وہ طلاق لے کر اس جھگڑے سے خلاصی پاسکتی ہے اور اگر خاوند طلاق نہ دے تو بذریعہ حاکم وقت وہ خلع کراسکتی ہے اور اگر دوسری بیوی اپنا کچھ حرج سمجھتی ہے تو وہ اپنے نفع نقصان کو خود سمجھتی ہے پس یہ اعتراض کرنا کہ اس طور سے اعتدال ہاتھ سے جاتا ہے خواہ نخواہ کا دخل ہے اور باایں ہمہ خدا تعالیٰ نے مردوں کو وصیت فرمائی ہے کہ اگر اُن کی چند بیویاں ہوں تو اُن میں اعتدال رکھیں ورنہ ایک ہی بیوی پر قناعت کریں۔ اور یہ کہنا کہ تعدّدِ ازواج شہوت پرستی سے ہوتا ہے یہ بھی سراسر جاہلانہ اور متعصبانہ خیال ہے ہم نے تو اپنی آنکھوں کے تجربہ سے دیکھا ہے کہ جن لوگوں پر شہوت پرستی غالب ہے اگر وہ تعدد ازواج کی مبارک رسم کے پابند ہو جائیں تب تو وہ فسق و فجور اور زناکاری اور بدکاری سے رُک جاتے ہیں اور یہ طریق اُن کو متقی اور پرہیزگار بنا دیتاہے ورنہ نفسانی شہوات کا تند اور تیز سیلاب بازاری عورتوں کے دروازہ تک اُن کو پہنچا دیتا ہے آخر آتشک اور سوزاک خریدتے یا اور کسی خطرناک مرض میں مبتلا ہوتے ہیں اور وہ کام فسق و فجور کے چھپے چھپے اور کھلے کھلے اُن سے صادر ہوتے ہیں جن کی نظیر اُن لوگوں میں ہرگز نہیں پائی جاتی جن کی دو دو تین تین دل پسند بیویاں ہوتی ہیں۔ یہ لوگ تھوڑی مدت تک تو اپنے تئیں روکتے ہیں آخر اس قدر یک دفعہ اُن کی ناجائز شہوات جوش میں آتی ہیں کہ جیسے ایک دریا کا بند ٹوٹ کر وہ دریا دن کو یارات کو تمام ارد گرد کے دیہات کو تباہ کر دیتا ہے سچ تو یہ ہے کہ تمام کام نیت پر موقوف ہیں جو لوگ اپنے اندر یہ محسوس کرتے ہیں کہ دوسری بیوی کرنے سے اُن کے تقویٰ کا سامان پورا ہو جائے گا اور وہ فسق و فجور سے بچ جائیں گے