اس جگہ مخالفوں کی طرف سے یہ اعتراض ہوا کرتا ہے کہ تعدّدِ ازواج میں یہ ظلم ہے کہ اعتدال نہیں رہتا۔ اعتدال اِسی میں ہے کہ ایک مرد کے لئے ایک ہی بیوی ہو مگرمجھے تعجب ہے کہ وہ دوسروں کے حالا ت میں کیوں خواہ نخواہ مداخلت کرتے ہیں جب کہ یہ مسئلہ اسلام میںؔ شائع متعارف ہے کہ چار تک بیویاں کرنا جائز ہے مگر جبر کسی پر نہیں او ر ہر ایک مرد اور عورت کو اس مسئلہ کی بخوبی خبر ہے تو یہ اُن عورتوں کاحق ہے کہ جب کسی مسلمان سے نکاح کرنا چاہیں تو اول شرط کرالیں کہ اُن کا خاوند کسی حالت میں دوسری بیوی نہیں کرے گا اور اگر نکاح سے پہلے ایسی شرط لکھی جائے تو بیشک ایسی بیوی کا خاوند اگر دوسری بیوی کرے تو جرم نقض عہد کا مرتکب ہوگا۔ لیکن اگرکوئی عورت ایسی شرط نہ لکھا وے اور حکم شرع پر راضی ہووے تواس حالت میں دوسرے کا دخل دینا بیجا ہوگا اور اس جگہ یہ مثل صادق آئے گی کہ میاں بیوی راضی توکیاکرے گا قاضی۔ ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ خدا نے تو تعدّد ازواج فرض واجب نہیں کیا ہے خدا کے حکم کی رو سے صرف جائز ہے پس اگر کوئی مرد اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے اس جائز حکم سے فائدہ اٹھانا چاہے جو خدا کے جاری کردہ قانون کی رُو سے ہے اور اُس کی پہلی بیوی
اُس پر راضی نہ ہو تو اس بیوی کے لئے یہ راہ کشادہ ہے کہ وہ طلاق لے لے اور اس غم سے نجات پاوے اور اگر دوسری عورت جس سے نکاح کرنے کاارادہ ہے اُس نکاح پر راضی نہ ہو تو اُس کے لئے بھی یہ سہل طریق ہے کہ ایسی درخواست کرنے والے کوانکاری جواب دے دے۔ کسی پر جبر تو نہیں لیکن اگر وہ دونوں عورتیں اس نکاح پر راضی ہوجاویں تو اس صورت میں کسی آریہ کو خواہ نخواہ دخل دینے اوراعتراض کرنے کا کیا حق ہے؟ کیا اُس مردنے اُن عورتوں سے نکاح کرنا ہے یا اس آریہ سے۔ جس حالت میں خدا نے تعدّدِ ازواج کو کسی موقعہ پرانسانی ضرورتوں میں جائز رکھا ہے اور ایک عورت اپنے خاوند کے دوسرے نکاح میں رضامندی ظاہر کرتی ہے اور دُوسری عورت بھی اس نکاح پرخوش ہے تو کسی کا حق نہیں ہے کہ اُن کے اس باہمی فیصلہ کو منسوخ کردے اور اس جگہ یہ بحث پیش کرنا کہ ایک سے زیادہ بیوی کرنا پہلی بیوی کے حق میں