(۱) ایک یہ کہ اُس کی اپنی بیوی کسی دوسرے مرد سے منہ کالا کراوے نہ ایک دن نہ دودن بلکہ قریباً چو۱۴دہ سال تک کسی دوسرے مرد سے ناجائز تعلق رکھے یا کم و بیش اور جو اُس غیر مرد سے اولاد ہو وہ مرغیوں کے بچوں کی طرح نصفا نصف تقسیم ہو جائے گی۔ یعنی نصف بچے تو اُس پاکدامن کے خاوند کو ملیں گے اور نصف دیگر اُس کو ملیں گے جس کے ساتھ یارانہ اولاد کے لئے لگایا گیا۔ اب اگرچہ آریہ صاحبان اس کام سے کچھ بھی نفرت نہیں کرتے مگر میں جانتا ہوں کہ اب بھی کئی کروڑ ہندو اِسی آریہ وَرت میں ایسے ہوں گے کہ وید کی اِس تعلیم کو اُن کا دل ہرگز منظور نہیں کرتا ہوگا اور مسلمانوں کی طرح ضرورت کے وقت دوسری شادی کرتے ہوں گے اِس سے ظاہر ہے کہ شریف ہندوؤں کی فطرت نے بھی ضرورت کے وقت نکاح ثانی کو پسند کیا ہے اگر تم پنجاب میں ہی تلاش کرو توہزارہا دولت مند اور امیر ہندو ایسے نکلیں گے کہ وہ دو دو تین تین بیویاں رکھتے ہوں گے مگر بجز اس قلیل گروہ آریوں کے کوئی شریف باعزت ہندو اس بات کو منظور نہیں کرے گا کہ اپنی جوان خوب صورت بیوی کو رات کو دوسرے کے ساتھ ہمبستر کرادے اگر یہ بے غیرتی نہیں تو پھر بے غیرتی اور بے شرمی کس چیز کا نام ہے؟ مگر کئی بیویاں کرنے کا طریق مسلمانوں کی طر ح ہندوؤں میں بھی ہمیشہ سے چلا آیا ہے اور اس وقت کے ہندو راجے بھی برابر اس کے کاربند ہیں اورہم بڑے دعوے سے کہتے ہیں کہ کئی بیویاں کرنے کا طریق فقط اس زمانہ میں ہندوؤں میں پیدا نہیں ہوا بلکہ ہندوؤں کے وہ بزرگ جو اوتار کہلاتے تھے اُن کا تعدّدِ ازواج بھی ثابت ہے۔ چنانچہ کرشن جی کی ہزاروں بیویاں بیان کی جاتی ہیں اوراگر ہم اس بیان کو مبالغہ خیال کریں تواس میں شک نہیں کہ دس بیس تو ضرور ہوں گی۔ راجہ رامچندر کے باپ کی بھی دو بیویاں تھیں اور جہاں تک ہمیں معلوم ہے وید میں کہیں تعدّدِ ازواج کی ممانعت نہیں پائی جاتی ورنہ یہ بزرگ لوگ ایسا کام کیوں کرتے جو وید کے برخلاف تھاایسا ہی باوا نانک صاحب جو ہندو قوم میں ایک بڑے مقدس آدمی شمار کئے گئے ہیں اُن کی بھی دو بیویاں تھیں۔