کے لوگ اپنے مقدمات آپ سے فیصلہ کراتے تھے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ایک دفعہ ایک مسلمان اور ایک یہودی کا آنجناب کی عدالت میں مقدمہ آیا تو آنجناب نے تحقیقات کے بعد یہودی کو سچا کیا اور مسلمان پر اُس کے دعوے کی ڈگری کی۔ پس بعض نادان مخالف جو غور سے قرآن شریف نہیں پڑھتے وہ ہر ایک مقام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے نیچے لے آتے ہیں حالانکہ ایسی سزائیں خلافت یعنی بادشاہت کی ؔ حیثیت سے دی جاتی تھیں۔
بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ کے بعد نبی جُدا ہوتے تھے اور بادشاہ جُدا ہوتے تھے جو امور سیاست کے ذریعہ سے امن قائم رکھتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں یہ دونوں عہدے خدا تعالیٰ نے آنجناب ہی کو عطاکئے اور جرائم پیشہ لوگوں کو الگ کرکے باقی لوگوں کے ساتھ جو برتاؤ تھا وہ آیت مندرجہ ذیل سے ظاہر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے3 3 ۱ الجزو نمبر۳ سورۃ آل عمران (ترجمہ)اور اے پیغمبر اہل کتاب اورعرب کے جاہلوں کوکہو کہ کیا تم دین اسلام میں داخل ہوتے ہو۔ پس اگر اسلام قبول کرلیں توہدایت پاگئے اور اگر منہ موڑیں تو تمہارا تو صرف یہی کام ہے کہ حکم الٰہی پہنچا دو۔ اس آیت میں یہ نہیں لکھا کہ تمہارا یہ بھی کام ہے کہ تم اُن سے جنگ کرو۔ اس سے ظاہر ہے کہ جنگ صرف جرائم پیشہ لوگوں کے لئے تھا کہ مسلمانوں کو قتل کرتے تھے یاامن عامہ میں خلل ڈالتے تھے اور چوری ڈاکہ میں مشغول رہتے تھے اور یہ جنگ بحیثیت بادشاہ ہونے کے تھانہ بحیثیت رسالت۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے 33 ۲ ۔ الجزو نمبر ۲ سورۃ البقرہ۔ (ترجمہ) تم خدا کے راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں۔ یعنی دوسروں سے کچھ غرض نہ رکھو اور زیادتی مت کرو۔ خدا زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
پھر مضمون پڑھنے والے نے قرآن شریف کا ذکر کرکے تعدّدِ ازواج پر اعتراض کیا اس کے