امانت کرے تووہ کبھی حوالہ نہ کریں گے مگر صرف اُس وقت کہ تو اُن کے سر پر کھڑا ہوگا۔ یہ بدمعاملگی اس لئے کرتے ہیں کہ وہ کھلے کھلے طورپر کہتے ہیں کہ عرب کے اَنْ پڑھ لوگوں کا حق مار لینے میں ہم سے کوئی باز پُرس نہیں ہوگی اور دیدہ دانستہ خدا پر جھوٹ بولتے ہیں۔
غرض عرب کے مشرکوں کی طرح اس ملک کے اہل کتاب بھی جرائم پیشہ ہوگئے تھے عیسائیوں نے تو کفارہ کے مسئلہ پر زور دے کر اور اس پر بھروسہ کرکے یہ سمجھ لیا تھا کہ ہم پر سب جرائم حلال ہیں اور یہودی کہتے تھے کہ ہم ارتکاب جرائم کی وجہ سے صرف چند روز دوزخ میںؔ پڑیں گے اس سے زیادہ نہیں جیسا کہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3 3 3 ۱ ۔الجزو نمبر ۳ سورۃ آل عمران (ترجمہ) یہ دلیری اورجرأت اِ س سے اُن کو پیدا ہوئی کہ اُن کا یہ قول ہے کہ دوزخ کی آگ اگر ہمیں چھوئے گی بھی تو صرف چند روز تک رہے گی اور جو افترا پر دازیاں وہ کرتے ہیں انہیں پرمغرور ہوکر اُن کے یہ خیالات ہیں۔
پس جب کہ اہل کتاب اور مشرکین عرب نہایت درجہ بدچلن ہوچکے تھے اور بدی کرکے سمجھتے تھے کہ ہم نے نیکی کاکام کیا ہے اور جرائم سے باز نہیں آتے تھے اور امن عامہ میں خلل ڈالتے تھے توخدا تعالیٰ نے اپنے نبی کے ہاتھ میں عنانِ حکومت دے کر اُن کے ہاتھ سے غریبوں کو بچانا چاہا اور چونکہ عرب کا ملک مطلق العنان تھا اور وہ لوگ کسی بادشاہ کی حکومت کے ماتحت نہیں تھے اِس لئے ہر ایک فرقہ نہایت بے قیدی اور دلیری سے زندگی بسرکرتا تھا اور چونکہ اُن کے لئے کوئی سزا کا قانون نہ تھا اِس لئے وہ لوگ روز بروز جرائم میں بڑھتے جاتے تھے پس خدا نے اس ملک پر رحم کرکے ۔۔۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ملک کے لئے نہ صرف رسول کرکے بھیجا بلکہ اس ملک کا بادشاہ بھی بنا دیا اور قرآن شریف کوایک ایسے قانون کی طرح مکمل کیا جس میں دیوانی فوجداری مالی سب ہدایتیں ہیں سو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ایک بادشاہ ہونے کے تمام فرقوں کے حاکم تھے اور ہر ایک مذہب