اور ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ بادشاہ کے لئے ایساکرنا ضروری ہے کہ مثلاً اگر کسی بادشاہ کی رعایا پر لوگ ڈاکہ ماریں اور اُن کا مال لوٹ کرلے جاویں یا نقب لگاکرمال لے جاویں یا طمع نفسانی سے لوگوں کو قتل کریں توکیا اس بادشاہ کا فرض نہیں ہوگا کہ ایسے مفسد لوگوں پر چڑھائی کرے اور ایسے مفسد لوگوں کو قرار واقعی سزا دے کرملک میں امن قائم کردے سو یہ لڑائی اہل کتاب سے اس وجہ سے نہیں تھی کہ اُن کو مسلمان کیا جائے بلکہ اس وجہ سے تھی کہ اُن کی شرارتوں سے ملک کو بچایا جائے اس بات کا قرآن شریف میں بتصریح ذکر ہے کہ اُن کی بدچلنی نہایت درجہ تک پہنچ گئی تھی۔ چنانچہ ان بدچلنیوں کے بارے میں قرآن شریف میں یہ آیات موجود ہیں۔ 3 33 3 ۱؂ (الجزو نمبر۱۰ سورۃ ا لتوبۃ) (ترجمہ) مسلمانو ! اہل کتاب کے اکثر عالم اور مشائخ لوگوں کے مال ناحق کھاتے ہیں یعنی ناجائز طور پر اُن کا روپیہ اپنے قبضہ میں کر لیتے ہیں اور خدا کی راہ سے لوگوں کو روکتے رہتے ہیں اور اس طرح پر ناجائز طور پر لوگوں کے مال لے کر سونا اور چاندی جمع کر لیتے ہیں اور خداکی راہ میں کچھ بھی خرچ نہیں کرتے سو اُن کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنادو۔ پھر ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ اہل کتاب کی بدچلنی کی نسبت خوب وضاحت سے فرماتا ہے اور وہ آیات یہ ہیں۔33 33 ۱؂ الجزونمبر ۳ سورۃ آل عمران۔(ترجمہ) اور اہل کتاب میں سے بعض ایسے ہیں کہ اگر اُن کے پاس زَرِنقد کا ایک ڈھیر بھی امانت رکھی جائے توجب تو مانگے وہ سب مال تیرے حوالہ کریں گے اور بعض اہل کتاب ایسے ہیں کہ اگر ایک اشرفی بھی تو اُن کے حوالہ بطور