سے لکھتا ہے کہ نعوذ باللہ اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبی تو نہیں تھے مگر خدا نے اس ملک کے بدچلن یہودیوں اور عیسائیوں کو سزا دینے کے لئے آپ کوغلبہ بخشا اور خدا نے بطور تنبیہ کے یہ قرین مصلحت قرار دیا کہ اس طرح پر اُن بدچلن فرقوں کو آئندہ بدچلنیوں اور بداعمالیوں سے روکا جاوے۔ یہ وہ گواہی ہے جو ایک سخت دشمن اسلام کا یعنی پادری فنڈل اپنی کتاب میزان الحق میں دیتا ہے اور باوجود سخت متعصب ہونے کے اس قدر سچ اُس کے منہ سے نکل گیا کہ اس وقت کے عیسائی اور یہودی سخت بدچلن اور بداعمال اورجرائم پیشہ تھے۔ پس ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ امن عامہ قائم کرنے کے لئے ایسے جرائم پیشہ لوگوں کا تدارک ضروری تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف پیغمبری کاعہدہ رکھتے تھے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک بادشاہ با اختیار کی طرح ملکی مصالح قائم رکھنے کے ذمہ وار ٹھہرائے گئے تھے اس صورت میں آپ کا فرض تھا کہ بحیثیت ایک بادشاہ اور والی ملک کے شریروں اور بدمعاشوں کا قرار واقعی بندوبست کریں اور مظلوموں کو جو اُن کی شرارتوں سے تباہ ہوگئے تھے اُن کے پنجہ سے چھڑاویں پس یوں سمجھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کے دو عہدے تھے ایک عہدۂ رسالت کہ جو کچھ خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم ملتا تھا وہ لوگوں کو پہنچا دیتے تھے اور دوسرا عہدہ بادشاہت اور خلافت کا۔ جس عہد کی رُو سے وہ ہر ایک مفسد اورمخل امن کو سزا دے کر امن عامہ کو ملک میں قائم کر دیتے تھے اور ملک عرب کا اُن دنوں میں یہ حال تھا کہ ایک طرف تو خود عرب کے لوگ اکثر لٹیرے اور قزاق اور طرح طرح کے جرائم کرنے والے تھے اور دوسری طرف جو اہل کتاب کہلاتے تھے وہ بھی سخت بدچلن تھے اور ناجائز طریقوں سے لوگوں کامال کھاتے تھے اگر عرب رات کو لوٹتے تھے تو یہ لوگ دن کو ہی غریب لوگوں کی گردن پر چھری پھیرتے تھے پس جبکہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوملک عرب کی بادشاہی دی تو بلاشبہ آنجناب کا یہ فرض تھا کہ بدمعاشوں اورمجرموں اورچوروں اور ڈاکوؤں اور مفسدوں کا بندوبست کریں اور جو لوگ جرائم سے باز نہیں آتے اُن کو سزا دیں