ذکر ہے کہ جو کھلے کھلے طور پر جرائم پیشہ ہوگئے تھے اور عیسائیت اور یہودیت صرف نام کے لئے تھی ورنہ اُن کوخدا پر بھی ایما ن نہیں رہا تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے 3333 ۱؂ ۔ 33 ۲؂ (ترجمہ) اور اکثر اہل کتاب کو تو دیکھے گا کہ گناہ کے کاموں کی طرف دوڑتے ہیں اور حرام کھاتے ہیں کیا ہی بُرے یہ کام اور بد اعمالیاں ہیں کہ ؔ یہ لوگ کررہے ہیں اُن کے مشائخ اور علماء کیوں ان بُرے کاموں سے اُن کو منع نہیں کرتے اور دیکھتے ہیں کہ وہ جھوٹ بولتے اور جھوٹی گواہیاں دیتے ہیں اور حرام کھاتے ہیں پھر بھی چپ رہتے ہیں۔ پس یہ اُن کے علماء بھی بُرے کام کر رہے ہیں کہ خاموش رہ کر اُن کی بدی میں آپ بھی شریک ہیں۔ اے پیغمبر! تو یہود اور نصاریٰ کو کہہ دے کہ جب تک تم توریت اور انجیل کے احکام پر نہ چلواور ایساہی اُن دوسری تمام کتابوں پر قائم نہ ہو جاؤ جو خدا کی طرف سے تمہیں دی گئی ہیں تب تک تمہاراکچھ بھی مذہب نہیں محض لا مذہب ہوکراپنے نفسوں کی پیروی کر رہے ہو پس ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ عرب کے یہود اور عیسائی ایسے بگڑ گئے تھے اور اس درجہ پر وہ بدچلن ہوگئے تھے کہ جو کچھ خدانے اُن کی کتابوں میں حرام کیا تھا یعنی یہ کہ چوری نہ کریں لوگوں کاناحق مال نہ کھاویں۔ ناحق کا خون نہ کریں۔ جھوٹی گواہی نہ دیں۔ خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ یہ تمام ناجائز کام ایسی دلی رغبت سے کرتے تھے کہ گویا اُن بُرے کاموں کو انہوں نے اپنا مذہب قراردے دیا تھا جیسا کہ پادری فنڈل صاحب نے بھی اپنی کتاب میزان الحق میں جو اس ملک میں مدت تیس۳۰ سال سے شائع ہوچکی ہے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ درحقیقت ملک عرب میں جو عیسائی اور یہودی تھے وہ سخت بدچلن ہوگئے تھے اور ملک کے لئے اُن کا وجودخطرناک تھا اور اُن کے مفاسد حد سے بڑھ گئے تھے بعد اس کے وہ پادری اپنی شرارت