اس قدر گر گیا ہے کہ قبل ازیں کئی سال یہ نوبت نہ پہنچی تھی۔ روم اور نیپلز کے درمیان ٹرینوں پر اس قدر برفباری ہوئی ہے کہ الامان۔ قسطنطنیہ میں کئی کئی فٹ تک برف پڑی۔ آبنائے باسفورس میں جہازوں اور سٹیمروں کی آمد و رفت ملتوی ہو گئی ہے۔ چینل میں آج کل جو جہاز اِدھر اُدھر سے پہنچتے ہیں وہ بالکل برف سے مستور ہوتے ہیں پیرس کے بازاروں میں غریب و غربا ٹھٹھرٹھٹھر کر جان بحق ہو رہے ہیں۔ اٹلی کی جھیلیں اور نہریں جمی ہوئی ہیں۔ کیا سائنس اور علم حوادث ارضی اور سماوی کے ماہر اس بات کا کوئی تسلی بخش جواب دے سکتے ہیں کہ اگر قدرت کا یہ عظیم الشان کارخانہ ہمیشہ سے اور ہمیشہ کے لئے ایک مقررہ قانوؔ ن کا پابند ہے اور کوئی فوق الفوق قادر مطلق اور مد بّر بالاِ رادہ ہستی اس پر متصرف نہیں تو نیچر کے حالات روز مرہ میں کبھی کبھی یہ خلاف معمول واقعات کا ظہور کیوں ہوتا ہے اور کیا ایسے حوادث سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ اسلام ہی دنیا میں ایک ایسا مذہب ہے جس کے عقائد کو مان کر انسان کسی حال میں ٹھوکر نہیں کھا سکتا*ورنہ دہریے تو ایک طرف رہے اکثر مذاہب موجودہ کے پابند بھی ایسے موقعوں پر اپنے معتقدات کی معقولیت کا کوئی قابل اطمینان ثبوت نہیں دے سکتے۔‘‘
پھر اخبار نور افشاں مورخہ ۲۲؍فروی ۱۹۰۷ء میں لکھا ہے کہ ہانگ کانگ میں اس شدت سے بارش ہوئی کہ دس۱۰ منٹ کے اندر بندرگاہ کے آس پاس قریب یکصد چینی ہلاک ہوئے اور پرچہ اخبار نورافشاں ۲۳؍فروری ۱۹۰۷ء میں لکھا ہے کہ بمقام آرمی نیوز ہفتہ ھٰذا میں اس زور وشور کی بارش ہوئی کہ برسات کو بھی مات کر دیا اور دو تین مرتبہ شدّت سے ژالہ باری بھی ہوئی*۔
ایسے غیر معمولی حوادث سے صرف یہی نتیجہ نہیں نکلتا کہ اسلام برحق ہے بلکہ کھلے کھلے طور پر یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ جس شخص نے مسیح موعود ہونے کے دعوے کے ساتھ پیش از وقت ایسے غیر معمولی اور عالمگیر واقعہ کی خبر دی وہ سچا اور خدا کی طرف سے ہے۔ منہ
* ہم ایڈیٹر پرچہ نور افشاں سے پوچھتے ہیں کہ کیا کسی انجیل کے پیرو نے بھی یہ عظیم الشان پیشگوئی کی تھی کہ جو تمام ملک بلکہ تمام دنیا پر دائرہ کی طرح محیط ہو گئی اگر یہ پیشگوئی خدا کی طرف سے نہیں تھی تو پھر کس ایسے شخص کی طرف سے تھی جو قدرت نمائی میں خدا کے برابر تھا پھر جبکہ آنے والے مسیح موعود نے خدا کی گواہی اپنے لئے پیش کر دی تو پھر اب بھی اس کو نہ ماننا کیا یہ اُن یہودیوں کی صفت ہے یا نہیں جنہوں نے مسیحؑ کے معجزات دیکھ کر بھی اُس سے دشمنی کی اور جو چاہا اُس سے کیا۔ منہ