دونوں قسم کی فصلوں کے نقصان کاخوف ہوتا ہے۔ اب کوئی ضلع نہیں ہے جہاں زیادہ بارشوں کی ضرورت بیان کی جائے* ۔سرکاری رپورٹ میں بتلایا گیا ہے کہ ضلع گڑگا نوہ میں پچھلے ہفتہ بعض حصوں میں اولے پڑنے سے فصلوں کا کسی قدر نقصان ضرور ہوا۔ آج رات کی بارش میں گرج اور کڑک بھی تھی لیکن بادلوں کا زور بدستور نظر آرہا ہے۔ اس قدر بارش سے شہر کے مکانات کے لئے بھی نقصان کا اندیشہ غالب ہے۔ سڑکوں کے پرخچے اُڑ گئے ہیں کینکر کی سڑکیں کیچڑ سے دلدؔ ل ہو رہی ہے۔ میدانوں میں پانی ہی پانی نظر آتا ہے تمام اشجار نہائے دھوئے مثل دُلہن کے خوبصورت اور سبز نظر آتے ہیں گویا کہ نئی پوشاکیں پہنائی گئی ہیں اِن ایام میں ایسی بارش سالہائے دراز کے بعد نصیب ہوئی ہے (اِس فقرہ میں اس اخبار نے گواہی دی کہ یہ بارش غیرمعمولی ہے) حق یہ ہے کہ موسم گرما کے ایّامِ برسات میں بھی ایسی بارشیں بہت کم دیکھی گئی ہیں اُس پروردگار پر ماتما کے عجیب و غریب کرشمے ہیں کہ یہ موسم اور یہ حالت۔‘‘
واضح ہو کہ یہ ایک ہندو صاحب کا اخبار ہے جولاہور سے نکلتا ہے اور محض خدا تعالیٰ نے میری پیشگوئی کی شہادت کے لئے اس کے قلم و زبان سے یہ راست راست بیان نکالا ہے۔
اور پھر اسی پرچہ اخبار عام ۲۶؍فروری ۱۹۰۷ء میں یہ خبر اخبار کے صفحہ ۶ میں لکھی ہے:۔
’’اگرچہ اس سال موسم سرما کچھ سُست دکھلائی دیتا تھا اور یہ امید منقطع ہو گئی تھی مگر آخر ایّام جنوری (یعنی موسم بہار) میں اپنا رنگ جمایا اور رنگا رنگ کے دانت دکھلانے شروع کردیئے اِس مہینہ میں موسم سرما نے ایسے تعجب انگیز حالات کبھی نہیں دکھائے تھے۔ اخیر جنوری سے اِس وقت تک یہ نوبت ہوئی کہ لوگ پناہ مانگ اُٹھے کبھی بارش اور کبھی برفباری اور کبھی ژالہ زدگی پھر بادلوں کا انبار ہر وقت برقع پوش
* اس سے ثابت ہے کہ یہ بارش ایک عالمگیر بارش تھی اور اس میں امر خارق عادت صرف یہی نہ تھا کہ بہار کے موسم میں اس قدر بارش ہوئی کہ برسات کو بھی مات کر دیابلکہ یہ دوسرا امر خارق عادت یہی تھا کہ باوجود بہار کے موسم کے عام طورپر تمام ملک میں بارش ہو گئی حالانکہ برسات کے دنوں میں بھی کبھی ایسا نہیں ہوا۔ منہ