اوّل اخبار عام لاہور ۲۱؍فروری ۱۹۰۷ء سے بطریق اختصار لکھا جاتا ہے۔ چنانچہ اخبار مذکور کے دوسرے صفحہ میں بارش کے یہ حالات لکھے ہیں:۔ ’’لاہور میں یہ حال ہے کہ دو ہفتہ سے زیادہ عرصہ سے بادل پیچھے لگ رہے ہیں اور لوگوں کو بجائے خوش کرنے کے پریشان کر رہے ہیں دو روز تک آسمان بارش سے خالی تھا اور معلوم ہوتاتھا کہ شاید اب بس کرے گا لیکن اتوار اور سوموار کی درمیانی رات کے پچھلے نصف حصہ میں بارش اِس زور اور ایسے افراط سے ہوئی کہ لوگ بستروں پر لیٹے ہوئے توبہ الامان پکارتے تھے اور حیران تھے کہ کہیں خدانخواستہ بارش کی رحمت مبدل بز حمت نہ ہو جائے اس کے ساتھ بجلی بھی خوب چمکی اور آنکھوں کو خیرہ کرتی تھی اور اس کے ساتھ بادلوں کی گرج اور رعدکی کڑک دلوں کو دہلاتی تھی اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ خداوند کو کیا منظور ہے یہ موسم اور یہ بارش زراعتی لحاظ سے نہایت مفید اور مبارک ضرور ہے لیکن آخر اس کی کچھ حد ہے مثل مشہور ہے کہ افراط ہر ایک اچھی چیز کو بھی خراب کر دیتی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ جس بارش کو لوگ غیر مترقبہ سمجھتے ہیں اور لاکھ لاکھ شکر کرتے ہیں وہ رحمت کی زحمت نہ بن جائے اور فصلوں کی جڑوں کو اُکھاڑ کر نیست و نابود کر ڈالے اور نشیب کی زراعتیں دریا بُرد نہ ہو جائیں اور تمام امیدوں پر پانی پھر جائے سب لوگ مارے حیرت کے دم بخود ہیں اور کہتے ہیں کہ نہ معلوم پروردگار کی مرضی کیا ہے کون آدمی دم مارنے کی جرأت کر سکتا ہے انسان سوچتا کچھ ہے اور پیش اور ہی کچھ آتا ہے تعجب کی بات ہے کہ چند روز قبل چڑیا کی قسم کے چھوٹے چھوٹے پرندبڑے شوق سے پانی میں نہاتے ہوئے دیکھے گئے باوجود سردی کی تیزی اور جاڑوں کی شدت کے یہ جانور پانی میں اس طرح نہاتے تھے کہ دیکھ کر تعجب ہوتا تھا کہ ان کے اندر اتنی گرمی کیسے پیدا ہو گئی ہے اور تجربہ کار لوگ اس سے بارش کی افراط کا نتیجہ نکالتے تھے۔ چنانچہ یہ خیال واقعی صحیح ثابت ہوا ہے بادل اس وقت تک آسمان پر بدستور منڈلاتے ہیں اب تو سب لوگ چاہتے ہیں کہ بارش بند ہو اور دھوپ کی صورت نظر آوے قلّت بارشوں سے تو صرف غیر نہری فصلوں کا نقصان متصور ہے حالانکہ اس موسم میں مسلسل بارشوں سے نہری اور غیر نہری