ان میں جرح سے خالی نہیں سب مغشوش اور صحت کے درجہ سے گری ہوئی ہیں البتہ مسیح موعود کے آنے کے لئے بہت سی حدیثیں موجود ہیں سو ان کے ساتھ یہ بھی الفاظ موجود ہیں کہ وہ جہاد نہیں کرؔ ے گا۔ اور کفار کے ساتھ کوئی لڑائی نہیں کرے گا اور اس کی فتح محض آسمانی نشانوں سے ہوگی۔ چنانچہ صحیح بخاری میں مسیح موعود کی نسبت حدیث یضع الحرب موجود ہے یعنی جب مسیح موعود آئے گا تو جنگ اور جہاد کی رسم کو اُٹھا دے گا اور کوئی جنگ نہیں کرے گا اور صرف آسمانی نشانوں اور خدائی تصرّفات سے دینِ اسلام کو زمین پر پھیلائے گا۔* چنانچہ میرے وقت میں اب یہ آثار دُنیا میں موجود بھی ہو رہے ہیں اور یہی سچ ہے اور میں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود ہوں خدا نے مجھے یہ حکم نہیں دیا کہ میں جہاد کروں اور دین کے لئے لڑائیاں کروں بلکہ مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں نرمی کروں اور دین کی اشاعت کے لئے خدا سے مدد مانگوں اور آسمانی نشان اور آسمانی حملے طلب کروں اور مجھے اُس خدائے قدیر نے وعدہ دیا ہے کہ میرے لئے بڑے بڑے نشان دکھائے جائیں گے اور کسی قوم کو طاقت نہیں ہوگی کہ میرے خدا کے مقابل پر جو آسمان سے میری مدد کرتا ہے اپنے باطل خداؤں کا کوئی نشان ظاہر کر سکیں۔ چنانچہ میرا خدا اب تک میری تائید میں صدہا نشان ظاہر کر چکا ہے۔ پس نواب صدیق حسن خان کا یہ خیال صحیح نہیں تھا کہ مہدی کے زمانہ میں جبر کرکے لوگوں کو مسلمان کیا جائے گا۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ 3 ۱؂ یعنی دین اسلام میں جبر نہیں ہے ہاں عیسائی لوگ ایک زمانہ میں جبرًا لوگوں کو عیسائی بناتے تھے مگر اسلام جب سے ظاہر ہوا وہ جبر کے مخالف ہے جبر اُن لوگوں کا کام ہے جن کے پاس آسمانی نشان نہیں مگر اسلام تو آسمانی نشانوں کا سمندر ہے۔ کسی نبی سے اس قدر معجزات ظاہر نہیں ہوئے جس قدر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیونکہ پہلے نبیوں کے معجزات اُن کے مرنے کے ساتھ ہی مر گئے مگر * یہ بات قرین قیاس بھی ہے کہ جب مسیح کے نفس سے یعنی اُس کی توجہ سے کافر خود بخود مرتے جائیں گے تو پھر باوجود موجود ہونے ایسے معجزہ کے تلوار اُٹھانا بالکل غیر معقول ہے۔ ظاہر ہے کہ جب خدا تعالیٰ خود دشمنوں کو مارتا جائے گا تو پھر تلوار اُٹھانے کی حاجت ہی کیا ہے۔ منہ