مفید تھی اور عام مخلوق کے لئے نہایت ضروری تھی جبکہ اس پیشگوئی کے سمجھنے میں بھی لوگوں نے ٹھوکریں کھائیں تو پھر دوسری پیشگوئیوں کے سمجھنے میں غلطی کرنا قرین قیاس ہے۔ اور ایسا ہی جو حضرت عیسیٰ ؑ کی نسبت پیشگوئی تھی وہ بھی امتحان سے خالی نہیں تھی تو پھر مسیح موعود اور مہدی مسعود کیؔ نسبت پیشگوئی کیونکر امتحان سے خالی ہو سکتی ہے۔ کیا جیسا کہ سمجھا جاتا تھا اور جیسا کہ یہود کے علماء کا خیال تھا اور آج تک خیال ہے الیاس نبی دوبارہ حضرت عیسیٰ سے پہلے دنیا میں آگیا؟ پھر کس طرح حضرت عیسیٰ کے دوبارہ آنے کی اُمید رکھی جاتی ہے۔ ایمانداروں کی یہی علامت ہے کہ جب ایک موقعہ میں ایسا خیال جھوٹا ثابت ہو گیا تو پھر چاہئے کہ عمر بھر اس کا نام نہ لیں۔ یہود کی امیدیں الیاس کے دوبارہ آنے کے بارے میں کہاں پوری ہو گئیں کہ اب مسلمانوں کی امیدیں پوری ہو جائیں گی لا یلدغ المؤمن من جحرواحد مرتین۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسی عظیم الشان پیشگوئیوں کی حقیقت کو وہ زمانہ کھولتا ہے جو ان کے ظہورکا زمانہ ہوتاہے اور اس سے پہلے متقی اور پرہیزگار لوگ خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں پر ایمان تو لاتے ہیں مگر اُن کی تفاصیل کو خدا کے حوالے کر دیتے ہیں اور جو لوگ اپنی طرف سے قبل از وقت دخل دیتے ہیں اور اس پر ضد کرتے ہیں وہی ٹھوکر کھاتے ہیں۔
(۴) منجملہ خدا تعالیٰ کے نشانوں کے جو میری تائید میں ظاہر ہوئے نواب صدیق حسن خان وزیر ریاست بھوپال کے بارہ میں نشان ہے اور وہ یہ ہے کہ نواب صدیق حسن خان نے بعض اپنی کتابوں میں لکھا تھا کہ جب مہدی معہود پیدا ہوگا تو غیر مذاہب کے سلاطین گرفتار کرکے اس کے سامنے پیش کئے جائیں گے اور یہ ذکر کرتے کرتے یہ بھی بیان کر دیا کہ چونکہ اس ملک میں سلطنت برطانیہ ہے اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ مہدی کے ظہور کے وقت اس ملک کا عیسائی بادشاہ اسی طرح مہدی کے رو برو پیش کیا جائے گا۔ یہ الفاظ تھے جو اُنہوں نے اپنی کتاب میں شائع کئے تھے جو ابتک ان کی کتابوں میں موجود ہیں اور یہی موجب بغاوت سمجھے گئے اور یہ اُن کی غلطی تھی کہ اُنہوں نے ایسا لکھا کیونکہ ایسے خونی مہدی کے بارہ میں کوئی حدیث صحیح ثابت نہیں بلکہ محدّثین کا اتفاق ہے کہ مہدیء غازی کے بارہ میں جس قدر حدیثیں ہیں کوئی بھی