بار بار پیش کرتا ہے اور خود جانتا ہے کہ کبھی وعید کی پیشگوئی کو ٹال دینا سنت اللہ میں داخل ہے۔ اس بات کو کون نہیں جانتا کہ صدقہ اور خیرات اور تضرع اور دعا سے ردّ بلا ہو سکتا ہے۔ تمام نبیوں کا اس پر اتفاق ہے۔ پھر اگر بلا والی پیشگوئی ٹل نہیں سکتی تو پھر ردّ بلا کے کیا معنی ہوئے؟ اور یاد رہے کہ جس قسم کی مسیح موعود اور مہدی معہود کی نسبت پیشین گوئیاں ہیں قدیم سے سُنت اللہ یہی ہے کہ ایسی پیشگوئیاں ابتلا اور امتحان سے خالی نہیں ہوتیں اور ان میں اجمال ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے قبل از وقوع ان کی اصل حقیقت سمجھنے میں دھوکہ پڑ سکتا ہے اور اُن کے معنی آخر پر جاکر کھلتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہود کو باوجود موجود ہونے پیشگوئی کے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تھی یہ نصیب نہ ہوا کہ ایمان لے آویں۔ اگر اس پیشگوئی میں یہ تصریح ہوتی کہ اس آخری رسول کا نام محمد ہوگا (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اس کے باپ کا نام عبد اللہ ہوگا اور اُس کا مولد مکہ ہوگا اور اُس کا ہجرت گاہ مدینہ ہوگا اور وہ موسیٰ نبی سے اتنی مدّت بعد پیدا ہوگا اور بنی اسمٰعیل میں سے ہوگا (نہ بنی اسرائیل میں سے) تو بد قسمت یہودی انکار کرکے و اصل جہنم نہ ہوتے اور اگر حضرت عیسیٰ کی نسبت پیشگوئی میں بتصریح بیان کیا جاتا کہ وہ الیاس نبی جس کا اُن سے پہلے آسمان سے نازل ہونا ضروری ہے وہ یَحْيزکریا کا بیٹا ہوگا اور آسمان سے کوئی نازل نہیں ہوگا تو پھر بد بخت یہود حضرت عیسیٰ سے انکار کرکے کیوں دوزخ میں پڑتے۔ پس جبکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت جو پیشگوئی تھی وہ بھی امتحان سے خالی نہیں تھی جس کے بارے میں تصریح نہایت اور پھر انہیں حدیثوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات میں حضرت عیسیٰ کو فوت شدہ انبیاءؑ میں دیکھا اورؔ حضرت یحییٰ کے پاس بیٹھے دیکھا۔تو اب اُن کے فوت ہونے میں کیا شک رہا۔ اور پھر دوسری طرف قرآن شریف صاف طور پر اُن کی وفات کی گواہی دیتا ہے۔ کیا آیت فلمّا توفیتنی اُن کی وفات پر قطعیۃ الدلالت نہیں اور رفع جسمانی پر کیوں زور دیتے ہیں۔ کیا رفع روحانی نہیں ہوا کرتا اور آیت تو خود کہتی ہے کہ رفع روحانی ہے۔ کیونکہ توفّی کے بعد اس کا ذکر ہے۔ اور یہ اعتراض کیوں کرتے ہیں کہ اس کے ساتھ مہدی بھی آنا چاہئے تھا۔ کیا یہ حدیث یاد نہیں رہی کہ لا مہدی الا عیسٰی۔ منہ