پس یہ کس قدر بے حیائی کا طریق ہے کہ باوجود علم اس بات کے کہ وعید کی پیشگوئیاں ٹل سکتی ہیں اور ہمیشہ ٹلتی رہتی ہیں* پھر بھی شور مچانا کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں آخر شوخی اور انکار کی ایک حد ہے حد سے بڑھنا خدا تعالیٰ کے عذاب کی نشانی ہے مجھے بار بار تعجب آتا ہے کہ طاعون سر پر ہے اور بڑے بڑے زلزلوں کا خدا نے وعدہ دیا ہے اور آثارِ قیامت ظاہر ہیں۔ پھر معلوم نہیں کہ یہ لوگ کیوں ڈرتے نہیں*۔ اسیؔ وجہ سے مجھے آج یہ لکھنا پڑا کہ اگر مولوی ثناء اللہ امرتسری اپنی شوخیوں سے باز نہیں آتا تو اس کا یہی علاج ہے کہ مباہلہ کی درخواست کرے۔ یہ بھی اُس کی بد قسمتی ہے کہ چند متضاد حدیثوں پر ناز کرکے خدا تعالیٰ کے تازہ نشانوں سے انکار کرتا ہۂ۔اور وعید کی پیشگوئیوں کو عوام کو دھوکہ دینے کے لئے
* آج ۲۸؍فروری ۱۹۰۷ء کو بوقت صبح روز پنجشنبہ یہ الہام ہوا سخت زلزلہ آیا اور آج بارش بھی ہوگی۔ خوش آمدی نیک آمدی۔ منہ
* حاشیہ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر یہ بیان کرتا ہوں کہ اس بارے میں خود اپنی ذات کی نسبت اور اپنے دوستوں کی نسبت صاحب تجربہ ہوں کہ صبح ایک بلانازل ہونے کی پیشگوئی خدا نے فرمائی اور شام کو وہ کثرت دعا کی وجہ سے ٹل گئی اور یہ مجھے بشارت دی گئی کہ ہم نے اس بلا کو ٹال دیا۔ پس اگر میری تکذیب کے لئے یہی دلائل دشمنوں کے ہاتھ میں ہیں تو صدہا نظیریں اس کی خود میری سوانح اور میرے عزیزوں کے سوانح میں موجود ہیں تعجب کہ ہمارے مخالف ان تمام قصوں کو بھی بھول جاتے ہیں جو خود تفسیروں اور حدیثوں میں پڑھتے ہیں چنانچہ ان کی تفسیروں میں لکھا ہے کہ ایک بادشاہ بنی اسرائیل میں تھا اور وقت کے پیغمبر نے اُس کی نسبت یہ پیشگوئی کی تھی کہ وہ پندرہ دن کے اندر مر جائے گا۔ وہ اس پیشگوئی کو سُن کر بہت رویا اور اس قدر رویا کہ اُس پیغمبر پر دوبارہ وحی نازل ہوئی کہ ہم نے اُس کے پندرہ دن پندرہ سال سے بدل دیئے۔ یہ پیشگوئی اب تک بائبل میں بھی موجود ہے جس کا جی چاہے دیکھ لے۔منہ
أ یاد رہے کہ یہ دعویٰ کہ احادیث سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا ثابت ہے بالکل جھوٹ ہے کیونکہ حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ مسیح آنے والا اسی اُمت میں سے ہوگا۔ پس اس تکلف کی کیا ضرورت ہے کہ حضرت عیسیٰ کو آسمان سے نازل کرکے اُمّت میں داخل کیا جائے اور نبوت سے معطل کیا جائے کیا خدا تعالیٰ الیاس نبی کی طرح اسی اُمّت میں سے عیسیٰ پیدا نہیں کر سکتا جبکہ اس کے لئے ایک نظیر موجود ہے تو اس قدر تکلفات کی کیا حاجت ہے۔