امتحان مباہلہ سے پہلے کر لوں گا اور وہ صرف دس۱۰ سوال ہوں گے کہ متفرق مقامات کتاب حقیقۃ الوحی میں سے اُن سے دریافت کئے جائیں گے تا معلوم ہو کہ اُنہوں نے بغور تمام کتاب کو دیکھ لیا ہے۔ پس اگر انہوں نے ان سوالوں کا جواب کتاب کے موافق دے دیا تو تحریری مباہلہ جانبین کی طرف سے شائع ہو جائے گا۔ اگر اس طریق پر وہ راضی ہوں توایک نسخہ کتاب حقیقۃ الوحی کا میں ان کی طرف روانہ کرونگا اور روز کا جھگڑا اس سے فیصلہ پاجائے گا اور ان کا اختیار ہوگا کہ کتاب پہنچنے کے بعد امتحان مذکور ہ بالا کی تیاری کے لئے ایک دو ہفتہ تک مجھ سے مہلت مانگ لیں۔
میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ اور ان کے دوسرے بھائی علماء میری تکذیب کے وقت خداؔ تعالیٰ کی شریعت کی کچھ بھی پروا نہیں کرتے بلکہ اپنی طرف سے ایک نئی شریعت بناتے ہیں۔ کیا مولوی کہلا کر اُن کو یہ بھی خبر نہیں کہ وعید کی پیشگوئیوں کا تخلّف جائز ہے اور جس کسی کے حق میں خدا تعالیٰ وعید کی پیشگوئی کرے اور وہ توبہ اور تضرّع زاری کرے اور شوخی نہ دکھلاوے تو وہ پیشگوئی ٹل سکتی ہے جیسا کہ قوم کی تضرّع اور زاری سے یونس نبی کی پیشگوئی ٹل گئی جس سے یونس نبی کو بڑا ابتلا پیش آیا اور وہ پیشگوئی کے ٹل جانے سے رنجیدہ ہوا اس لئے خدا نے اس کو مچھلی کے پیٹ میں ڈال دیا۔ اور جب خدا تعالیٰ کے ایسے تصرفات پر شک کرنے سے ایک مقبول نبی موردِ عتاب ہوا اور موت کے قریب اس کی نوبت پہنچی تو پھر ان لوگوں کا کیا حال ہوگا کہ صرف انکار ہی نہیں بلکہ ہزاروں شوخیوں اور بے ادبیوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کے ایسے تصرفات سے انکار کرتے ہیں اور نہایت بیباکی سے بار بار کہتے ہیں کہ آتھم کی نسبت پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور شرط کا ذکر بھی نہیں کرتے۔ کیا یہی دیانت ہے کیا یہی ایمانداری ہے۔ یونس نبی کی پیشگوئی میں تو کوئی شرط بھی نہیں تھی پھر خدا نے قوم کا تضرّع اور گریہ وبکا دیکھ کر عذاب کو ٹال دیا۔ اسی طرح مولوی ثناء اللہ صاحب احمد بیگ کے داماد کا بار بار ذکر کرتے ہیں کہ وہ پیشگوئی کے مطابق فوت نہیں ہوا اور ان کو خوب معلوم ہے کہ وہ پیشگوئی دو شاخوں پر مشتمل تھی۔ ایک شاخ احمد بیگ کی نسبت تھی سو احمد بیگ عین پیشگوئی کے مطابق میعاد کے اندر فوت ہو گیاسو افسوس کہ ثناء اللہ اور دوسرے مخالف احمد بیگ کی وفات