کرتاہے یا ذلّت کی مار سے پامال کر دیتا ہے اورا پنی پیشین گوئیوں کے مطابق ایک دُنیا کو میری طرف کھینچ رہا ہے اور ہزاروں نشان دکھلاتا ہے اور اس قدر ہر ایک میدان میں اورؔ ہر ایک پہلو سے اور ہر ایک مصیبت کے وقت میں میری مدد کرتا ہے کہ جب تک اُس کی نظر میں کوئی صادق نہ ہو ایسی مدد اس کی وہ کبھی نہیں کرتا اور نہ ایسے نشان اُس کے لئے ظاہر کرتا ہے*۔ پھر بھی اگر مولوی ثناء اللہ صاحب جو آج کل ٹھٹھے اور ہنسی اور توہین میں دوسرے علماء سے بڑھے ہوئے ہیں اس گندے طریق سے باز نہیں آتے تو میں بخوشی قبول کروں گا اگر وہ مجھ سے درخواست مباہلہ کریں۔ لیکن امرت سر میں یہ مباہلہ نہیں ہوگا۔ ابھی تک مجھے وہ وقت بھولا نہیں جب میں ایک مجمع میں اسلام کی خوبیاں بیان کرنے کے لئے کھڑا ہوا تھااور ہر ایک کو معلوم ہے کہ اس وقت اس جگہ کے اہل حدیث نے میرے ساتھ کیا معاملہ کیا اور کس طرح شور کرکے اور پوری طور پر سفاہت دکھلا کر میری تقریر بند کرا دی اور جب میں سوار ہوا تو اینٹیں اور پتھر میری طرف چلائے اور حکّام کی بھی کچھ پروانہ کی۔ پس ایسی جگہ مباہلہ کیلئے موزوں نہیں ہاں قادیان موزوں ہے اور اس جگہ میں خود مولوی ثناء اللہ صاحب کی عزت اور جان کا... ذمّہ وار ہوں اور آمد و رفت کا کُل خرچ جو امرتسر سے قادیان تک ہوگا میں ہی دے دوں گا۔ مگر یہ شرط ہوگی کہ دو گھنٹہ تک پہلے میں اپنی سچائی کے وجوہات اُن کو سناؤں گا۔ اور اگر وہ قادیان میں آنا گوارا نہ کریں تو اس طرح بھی مباہلہ ہو سکتا ہے کہ اس کتاب حقیقۃ الوحی میں جو کچھ مَیں نے اپنی سچائی ثابت کرنے کے دلائل لکھے ہیں ان کی نسبت مولوی ثناء اللہ صاحب کا * یہ عجیب بات ہے کہ چودھویں صدی کے سر پر جس قدر بجز میرے لوگوں نے مجدّد ہونے کے دعوے کئے تھے۔ جیسا کہ نواب صدیق حسن خان بھوپال اور مولوی عبد الحی لکھنؤ وہ سب صدی کے اوائل دنوں میں ہی ہلاک ہو گئے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اب تک میں نے صدی کا چہارم حصہ اپنی زندگی میں دیکھ لیا ہے اور نواب صدیق حسن خان صاحب اپنی کتاب حجج الکرامہ میں لکھتے ہیں کہ سچا مجدّد وہی ہوتا ہے کہ جو صدی کا چہارم حصہ پالے۔ اب اے مخالفو! کسی بات میں تو انصاف کرو آخر خدا سے معاملہ ہے۔ منہ