اور دوسرے ہزار ہا لوگ جانتے ہیں کہ اُس زمانہ میں درحقیقت میں اُس مردہ کی طرح تھاجو قبر میں صدہا سال سے مدفون ہو ۔۔۔۔۔۔ اور کوئی نہ جانتا ہو کہ یہ کس کی قبر ہے بعد اس کے خدا تعالیٰ کی قدرؔ ت نے وہ جلوے دکھلائے کہ جو اس کی ہستی پر دلالت کرتے ہیں۔
اور پھر خدا تعالیٰ نے اِسی پر بس نہیں کی بلکہ صدہا دعائیں میری قبول کیں جن میں سے نمونہ کے طور پر اس کتاب میں درج ہیں۔ ہر ایک نے جو میرے پر مقدمہ کیا اس میں میں نے ہی فتح پائی اور فتح سے پہلے مجھے خبر دی گئی کہ تیرا دشمن مغلوب ہوگا اور ہر ایک نے جو مجھ سے مباہلہ کیا آخر خدا نے یا تو اُسے ہلاک کیا اور یا ذلّت اور تنگیء معاش کی زندگی اس کو نصیب ہوئی یا اس کی قطع نسل کی گئی اور ہر ایک جو میری موت چاہتا رہا اور بد زبانی کی آخر وہ آپ ہی مر گیا۔ اور اتنے نشان خدا نے میری تائید میں دکھلائے کہ وہ شمار سے باہر ہیں۔ اب کوئی خدا ترس جس کے دل میں خدا کی عظمت ہے اور کوئی دانشمند جس کو کچھ حیا اور شرم ہے یہ بتلاوے کہ کیا یہ امر خدا تعالیٰ کی سنت میں داخل ہے کہ ایک شخص جس کو وہ جانتا ہے کہ وہ مفتری ہے اور خدا تعالیٰ پر جھوٹ بولتا ہے اس سے خدا تعالیٰ یہ معاملات کرے؟ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جب سلسلہ الہامات کا شروع ہوا تو اُس زمانہ میں مَیں جوان تھا اب میں بوڑھا ہوا اور ستر ۷۰سال کے قریب عمر پہنچ گئی اور اُس زمانہ پر قریباً پینتیس سال گذر گئے۔ مگر میرا خدا ایک دن بھی مجھ سے علیحدہ نہیں ہوا۔ اُس نے اپنی پیشین گوئیوں کے مطابق ایک دُنیا کو میری طرف جھکا دیا۔ میں مفلس نادار تھا۔ اُس نے لاکھوں روپے مجھے عطا کئے اور ایک زمانہ دراز فتوحات مالی سے پہلے مجھے خبر دی اور ہر ایک مباہلہ میں مجھ کو فتح دی اور صدہا میری دعائیں منظور کیں اور مجھ کو وہ نعمتیں دیں کہ میں شمار نہیں کر سکتا۔ پس کیا یہ ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ اس قدر فضل اور احسان ایک شخص پر کرے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اُس پر افترا کرتا ہے جبکہ مَیں میرے مخالفوں کی رائے میں تیس بتیس برس سے خداتعالیٰ پر افترا کر رہا ہوں اور ہر روز رات کو اپنی طرف سے ایک کلام بناتاہوں اور صبح کہتا ہوں کہ یہ خدا کا کلام ہے اور پھر اس کی پاداش میں خدا تعالیٰ کا مجھ سے یہ معاملہ ہے کہ وہ جو اپنے زعم میں مومن کہلاتے ہیں اُن پر مجھے فتح دیتا ہے اور مباہلہ کے وقت میں اُن کو میرے مقابل پر ہلاک