ختم ہو چکی ہے اور اب ہم ساتویں ہزار میں ہیں اور یہ ضرور تھا کہ مثیل آدم جس کو دوسرے لفظوں میں مسیح موعود کہتے ہیں چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو جو جمعہ کے دن کے قائم مقام ہےؔ جس میں آدم پیدا ہوا۔ اور ایسا ہی خدا نے مجھے پیدا کیا۔ پس اس کے مطابق چھٹے ہزار میں میری پیدائش ہوئی۔ اور یہ عجیب اتفاق ہوا کہ میں معمولی دنوں کی رو سے بھی جمعہ کے دن پیدا ہوا تھا۔ اور جیسا کہ آدم نَر اور مادہ پیدا ہوئے تھے میں بھی توام کی شکل پر پیدا ہوا تھا۔ ایک میرے ساتھ لڑکی تھی جوپہلے پیدا ہوئی اور بعد میں اس کے مَیں پیدا ہوا۔ یہ تو وہ امور ہیں جو میری سوانح پر نظر کرکے طالب حق کو دلائل واضحہ دیتے ہیں۔ مگر سوائے اس کے ہزار ہا اور نشان ہیں جن میں سے بطور نمونہ ہم کچھ لکھ چکے ہیں۔
یاد رہے کہ میرے نشانوں کو سُن کر مولوی ثناء اللہ صاحب کی عادت ہے کہ ابو جہلی مادہ کے جوش سے انکار کے لئے کچے حیلے پیش کیا کرتے ہیں چنانچہ اس جگہ بھی انہوں نے یہی عادت دکھلائی اور محض افترا کے طور پر اپنے پرچہ اہل حدیث ۸؍فروری ۱۹۰۷ء میں میری نسبت یہ لکھ دیاہے کہ مولوی عبد الکریم کے صحت یاب ہونے کی نسبت جو اُن کو الہام ہوا تھا کہ وہ ضرور صحت یاب ہو جائے گا مگر آخر وہ فوت ہو گیا۔ اس افترا کا ہم کیا جواب دیں بجز اس کے کہ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔ مولوی ثناء اللہ صاحب ہمیں بتاویں کہ اگر مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کے صحت یاب ہونے کی نسبت الہام مذکورہ بالا ہو چکا ہے تو پھر یہ الہامات مندرجہ ذیل جو پرچہ اخبار بدر اور الحکم میں شائع ہو چکے ہیں کس کی نسبت تھے یعنی کفن میں لپیٹا گیا۔ ۴۷سال کی عمر انّا للّٰہ و انّا الیہ راجعون اُس نے اچھا ہونا ہی نہیں تھا۔ اِنّ المنایا لا تطیش سہامہا۔ یعنی موتوں کے تیر ٹل نہیں سکتے۔
واضح ہو کہ یہ سب الہام مولوی عبد الکریم صاحب کی نسبت تھے۔ ہاں ایک خواب میں اُن کو دیکھا تھا کہ گویا وہ صحت یاب ہیں مگر خوابیں تعبیر طلب ہوتی ہیں اور تعبیر کی کتابوں کو دیکھ لو۔ خوابوں کی تعبیر میں کبھی موت سے مُراد صحت اور کبھی صحت سے مُراد موت ہوتی ہے۔ اور کئی مرتبہ