کے لئے مقدر ہے یا مسلمانوں کے لئے جو حقیقی متبع ہیں توپھر کون ایماندار یہ گمان کر سکتا ہے کہ ایک اور شخص جو حضرت عیسیٰ کا مخالف ہے اور اُن کو نبی نہیں جانتا تمام زمین پر اپنا تسلط جما لے گا۔ ایساؔ خیال تونصِ صریح قرآن شریف کے مخالف ہے۔ ایسا ہی گرجا والی حدیث جو صحیح مسلم میں ہے یعنی یہ کہ گرجا میں سے دجّال نکلے گا اس آیت ممدوحہ کی مؤیّد ہے اور واقعات بھی یہی ظاہر کرتے ہیں کیونکہ جس عظیم الشان فتنہ کی خبر دی گئی تھی آخر کار وہ پادریوں کے ہاتھ سے ظہور پذیر ہوا۔ انسان کی عقلمندی کی یہ بھی ایک علامت ہے کہ واقعات پر بھی نظر کرے اور سوچ کر دیکھے کہ آثار اور علامات جو پیدا ہوئے ہیں وہ کس پہلو کی تائید کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے اِس دنیا کو ایک دن مقررکرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو عصر کے وقت سے تشبیہ دی ہے۔ پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ عصر ہوا تو پھر اب تیرہ سو چو۱۳۲۴بیس برس کے بعد اس زمانہ کا کیا نام رکھنا چاہئے؟ کیا یہ وقت قریب غروب نہیں اور پھر جب قریب غروب ہوا تو مسیح کے نازل ہونے کا اگر یہ وقت نہیں تو پھر اس کے بعد تو کوئی وقت نہیں۔
اسی طرح احادیث صحیحہ میں جو بعض ان کی صحیح بخاری میں پائی جاتی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو عصر سے تشبیہ دی ہے۔ پس اس سے ماننا پڑتا ہے کہ ہمارا زمانہ قیامت کے قرب کا زمانہ ہے اور پھر دوسری حدیثوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عمر دُنیا کی سات ۷۰۰۰ہزار سال ہے۔ اور قرآن شریف کی اِس آیت سے بھی یہی مفہوم ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔3 33 ۱ یعنی ایک دن خدا کے نزدیک تمہارے ہزار سال کے برابر ہے۔ پس جبکہ خدا تعالیٰ کی کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ دن سات ہیں۔ پس اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ انسانی نسل کی عمر سات ہزار سال ہے جیسا کہ خدا نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ سورۃ العصر کے عدد جس قدر حسابِ جُمل کی رو سے معلوم ہوتے ہیں اسی قدر زمانہ نسل انسان کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک تک بحساب قمری گذر چکا تھا کیونکہ خدا نے حساب قمری رکھا ہے اور اس حساب سے ہماری اس وقت تک نسل انسان کی عمر چھ ہزار برس تک