چاہی تھی سو اس کے چند روز ہی کے بعد اس کی بیخ کنی ہو گئی۔ اور اسی صفحہ ۷۰ میں مولوی اصغر علی کانام درج ہے وہ بھی اس وقت تک بد گوئی سے باز نہ آیا جب تک خدا تعالیٰ کے قہر سے ایک آنکھ اُس کی نکل گئی۔ ایسا ہی اس مباہلہ کی فہرست میں مولوی عبد المجید دہلوی کا ذکر ہے جو فروری ۱۹۰۷ء میں بمقام دہلی ہیضہ سے گذر گیا *۔ایسا ہی اور بہت سے لوگ تھے جو علماء یا سجادہ نشین کہلاتے تھے اور بعد اس دعوت مباہلہ کے بد گوئی اور بد زبانی سے باز نہیں آئے تھے اس لئے خدا تعالیٰ نے بعض کو تو موت کا پیالہ پلا دیا اور بعض طرح طرح کی ذلتوں میں گرفتار ہو گئے اور بعض اس قدر دنیا کے مکر اور فریب اور دنیا طلبی کے گندے شغل میں گرفتار ہوئے کہ حلاوت ایمان اُن سے چھین لی گئی ایک بھی اس بد دعا کے اثر سے محفوظ نہ رہا۔چونکہ سعد اللہ اپنی بد زبانی میں سب سے زیادہ بڑھ گیاتھا اس لئے نہ صرف اس کو نامرادی کی موت پیش آئی بلکہ ہر ایک ذلّت سے اس کو حصہ ملا اور تمام عمر نوکری کرکے پھر بھی اس کا پیٹ نہ بھرا۔ آخر موت کے قریب آکر عیسائیوں کے مدرسہ میں نوکری اختیار کی اور علاوہ ان تمام ذلتوں کے جو اس کو نصیب ہوئیں یہ آخری ذلت بھی اُس کو دیکھنی پڑی کہ پادریوں کا فرقہ جو دینِ اسلام کا دشمن ہے جن کے مدارس میں خلاف اسلام وعظؔ کرنا ایک شرط ہے اور ہر روز یا ہر ایک ساتویں دن حضرت عیسیٰ کی خدائی کے بارے میں مدرسہ میں گمراہ کرنے والی باتیں سُنانا اُن کا طریق ہے اُس نے گوارا کر لیا کہ ان کی چاکری اختیار کرے اور چونکہ عربی زبان میں اَبْتَرْ مُعْدِم کو بھی کہتے ہیں یعنی ایسے مفلس کو جوسب اندوختہ کھو بیٹھے اس قسم کے ابتر ہونے کا مصداق بھی اپنے تئیں ثابت کردیا کیونکہ اگر مالی برکت اس کو حاصل ہوتی تو وہ اپنے آخری * عبد المجید جب میں پہلے دہلی گیا تھا خود میرے مکان پر آیا تھا اور کہتا تھا کہ یہ الہام شیطانی ہیں اور مسیلمہ کذّاب سے مجھے تشبیہ دی اور کہا کہ اگر توبہ نہ کرو تو تقوّل اور افترا کا نتیجہ بھگتوگے۔ میں نے کہا کہ اگر میں مفتری ہوں تو میں افترا کی سزا پاؤں گا ورنہ جو شخص مجھے مفتری کہتا ہے وہ مواخذہ سے بچ نہیں سکتا آخر عبد المجید میری زندگی میں ہی اپنے اس زبانی مباہلہ کے بعد مر گیا اور ان ایّام میں اُس نے میرے مقابل پر میری تکذیب کے بارے میں سخت الفاظ کے ساتھ ایک اشتہار بھی شائع کیا تھا اور شاید پیسہ پیسہ پر فروخت کیا تھا۔ منہ