تمہیدی عبارت صفحہ ۶۷۔ انجام آتھم پر یہ ہے:۔ ’’گواہ رہ اے زمین !اور اے آسمان !کہ خدا کی *** اُس شخص پر کہ اس رسالہ کے پہنچنے کے بعد نہ مباہلہ کے لئے حاضر ہو اور نہ تکفیر اور توہین کو چھوڑے اور نہ ٹھٹھا کرنے والوں کی مجلسوں سے الگ رہے۔ اور اے مومنو! برائے خدا تم سب کہو کہ آمین‘‘۔ اور کتاب انجام آتھم جس میں سخت معاند لوگوں کو مباہلہ کے لئے بُلایا گیا ہے اور ایسے لوگوں کی اس میں فہرست لکھی گئی ہے اس فہرست کے صفحہ ۷۰ کی پہلی سطر کو ہی دیکھو کہ پہلی سطر کے سر پر ہی اس بد قسمت سعد اللہ کا نام درج ہے چنانچہ لکھا ہے: سعد اللہ نو مسلم مدرس لودہانہ اس مباہلہ پرآج کے دن تک بارہ۱۲ برس اور تین مہینے اور کئی دن گذر چکے ہیں پھر اس کے بعد اکثر لوگوں نے زبان بند کر لی اور جو بد زبانی سے باز نہ آئے اُن میں سے بہت کم ہوں گے جنہوں نے موت کا مزہ نہ چکھا۔ یا کسی ذلت میں گرفتار نہ ہوئے۔ چنانچہ نذیر حسین دہلوی جو ان سب کا سرغنہ تھا جو دعوتِ مباہلہ میں اوّل المدعوین ہے اپنے لائق بیٹے کی موت دیکھ کر ابتر ہونے کی حالت میں دنیا سے گذر گیا۔ رشید احمد گنگوہی جس کا نام دعوت مباہلہ کے صفحہ ۶۹ میں درج ہے مباہلہ کی دعوۃ اور بد دعا کے بعد اندھا ہو گیا اور پھر سانپ کے کاٹنے سے مرگیا اورؔ مولوی عبد العزیز لدھیانوی اور مولوی محمد لدھیانوی جن کا ذکر بھی اسی صفحہ ۶۹ میں ہے بعد دعوت مباہلہ اس دُنیا کو چھوڑ گئے۔ اور ایسا ہی مولوی غلام رسول عرف رسل بابا جس کا ذکر دعوت مباہلہ کے صفحہ ۷۰ میں ہے بعد دعوت مباہلہ اور بد دُعا مذکورہ بالا کے بمقام امرتسر طاعون سے مر گیا۔ ایسا ہی مولوی غلام دستگیر قصوری جس کا ذکر اسی کتاب انجام آتھم کے صفحہ ۷۰ میں ہے اور جس نے خود بھی اپنا مباہلہ اپنی کتاب فیض رحمانی میں شائع کیا تھا وہ کتاب کی تالیف سے ایک ماہ بعد مر گیا۔ اور اس کی موت کا یہی سبب نہیں کہ میں نے انجام آتھم کے صفحہ ۶۷ میں یعنی اس کی سترھویں۱۷ سطر میں اُس پر اور دوسرے مخالفوں پر جو شرارتوں سے باز نہ آویں اور نہ مباہلہ کریں بد دعا کی تھی اور اُن پر خدا کا عذاب چاہا تھا بلکہ اس کا اپنا مباہلہ بھی اس کی موت کا سبب ہو گیا کیونکہ اُس نے میرا اور اپنا ذکر کرکے خدا تعالیٰ سے ظالم کی بیخ کنی ہونی