ہو جاوے گا جب اس کی گندی نظم اور نثر کو دیکھوگے۔ وہ بد قسمت اس قدر گندہ زبانی اور دُشنام دہی میں بڑھ گیا تھا کہ مجھے ہر گز امید نہیں کہ ابو جہل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ بد زبانی کی ہو بلکہ مَیں یقیناًکہتا ہوں کہ جس قدر خدا کے نبی دُنیا میں آئے ہیں اُن سب کے مقابل پر کوئی ایسا گندہ زبان دشمن ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ سعد اللہ تھا اُس نے مخالفت اور عناد کے کسی پہلو میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھا تھا اور چوہڑوں اور چماروں کو بھی وہ گندہ طریق گالیوں کا یاد نہیں ہوگا جو اس کو یاد تھا۔ سخت سے سخت الفاظ اور ناپاک سے ناپاک گالیاں اس شدت اور بے حیائی سے اس کے منہ سے نکلتی تھیں کہ جب تک کوئی شخص اپنی ماں کے پیٹ سے ہی بد طینت پیدا نہ ہو ایسی فطرت کا انسان نہیں ہو سکتا ایسے انسانوں سے سانپوں کے بچے بھی اچھے ہوتے ہیں۔ مَیں نے اس کی بد زبانی پر بہت صبر کیا اور اپنے تئیں روکا کیا۔ لیکن جب وہ حد سے گذر گیا اور اس کے اندرونی گند کا پُل ٹوٹ گیا تب میں نے نیک نیتی سے اس کے حق میں وہ الفاظ استعمال کئے جو محل پر چسپاں تھے اگرچہ وہ الفاظ جیسا کہ مذکورہ بالا الفاظ میں مندرج ہیں بظاہر کسی قدر سخت ہیں مگر وہ دُشنام دہی کی قسم میں سے نہیں ہیں بلکہ واقعات کے مطابق ہیں اور عین ضرورت کے وقت لکھے گئے ہیں۔ ہر ایک نبی ؔ حلیم تھا مگر اُن سب کو واقعات کے متعلق ایسے الفاظ اپنے دُشمنوں کی نسبت استعمال کرنے پڑے ہیں چنانچہ انجیل میں کس قدر نرم تعلیم کا دعویٰ کیا گیا ہے تاہم اُنہیں انجیلوں میں فقیہوں فریسیوں اور یہودیوں کے علماء کی نسبت یہ الفاظ بھی موجود ہیں کہ وہ مکار ہیں فریبی ہیں مفسد ہیں سانپوں کے بچے ہیں بھیڑیئے ہیں اور ناپاک طبع اور خراب اندرون ہیں اور کنجریاں اُن سے پہلے بہشت میں جائیں گی۔ ایسا ہی قرآن شریف میں زنیم وغیرہ الفاظ موجود ہیں پس اِس سے ظاہر ہے کہ جو لفظ محل پر چسپاں ہو وہ دشنام دہی میں داخل نہیں اور کسی نبی نے سخت گوئی میں سبقت نہیں کی بلکہ جس وقت بد طینت کافروں کی بد گوئی انتہاتک پہنچ گئی تب خدا کے اذن سے یا اُس کی وحی سے وہ الفاظ اُنہوں نے استعمال کئے۔ ایسا ہی تمام مخالفوں کی نسبت میرا یہی دستور رہا ہے کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے