اِس فقرہ کے لئے یہ ضروری ہے کہ پہلے کسی نے ابتر کہا ہو پھر اس کے مقابل پر اس کو ابتر کہا جائے پس یہ فقرہ اس بات پر شاہد ہے کہ سعد اللہ مجھے ابتر کہتا تھا اور میری نسبت چاہتا تھا کہ میں ہر ایک خیرو برکت سے بے نصیب رہ کر اس کے رو برو فوت ہو جاؤں اور میری نسل بھی منقطع ہو جائے پس جو کچھ اُس نے خدا سے میرے لئے چاہا خدا نے اس کے لئے کر دیا۔ میں نے اس کے ابتر اور نامراد مرنے کے لئے سبقت نہیں کی اور نہ میں نے یہ چاہا کہ وہ میرے رو برو ہلاک ہو مگر جب اُس نے ان باتوں میں سبقت کی اور کھلے کھلے طور پر اپنی کتاب شہاب ثاقب میں میری موت کی نسبت پیشگوئی شائع کی اور میرا دل دُکھایا اور دُکھ دینے میں حد سے بڑھ گیا۔ تب چار برس بعد میں نے اس کے لئے دُعا کی تو خدا نے مجھ کو اس کی موت کی خبر دی اور نیز فرمایا کہ سعد اللہ جو تیرے ابتر رہنے کی پیشگوئی کرتا ہے وہ خود ابتر رہے گا۔ مگر میں تیری نسل کو قیامت تک قائم رکھوں گا۔ اور تو برکات سے محروم نہیں ہوگا اور میں یہاں تک تجھے برکت دوں گا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اور ایک دنیا کو تیری طرف رجوع دوں گا مگر سعد اللہ خیرو برکت سے بے نصیب رہ کر تیری آنکھوں کے سامنے ذلّت کی موت سے مرے گا سو ایسا ہی ظہور میں آیا۔ یہ ہیں خدا کی پیشگوئیاں جو ٹل نہیں سکتیں اگر یہ باتیں صرف زبانی ہوتیں تو کو نؔ مخالف آج میری اِس پیشگوئی کو مانتا۔ لیکن یہ تمام باتیں آج سے بار۱۲ہ برس پہلے میری کتابوں اور اشتہاروں میں شائع ہو چکی ہیں جن سے کسی مخالف کو گریز کی جگہ نہیں مگر وہی جو حیا اور شرم کو چھوڑ کر ابو جہل کی طرح روز روشن کو رات کہتا ہے اور آفتاب کو جو چمک رہا ہے بے نور قرار دیتا ہے۔ ایسا ہی اگر سعد اللہ میری موت اور ذلت اور نیز میری جماعت کے تباہ ہونے کی نسبت اپنی کتاب شہاب ثاقب میں پیشگوئی شائع نہ کرتا تواس وقت میری بات کون مان سکتا تھا مگر خدا کا شکر ہے کہ دونوں طرف سے مباہلہ کے رنگ میں پیشگوئیاں شائع ہو گئیں اور روز روشن کی طرح کھل گیا کہ آخر کس کے حق میں خدا تعالیٰ نے فیصلہ کیا۔
اور یہ بھی یاد رہے کہ اگرچہ سعد اللہ کی نسبت میری کتابوں میں بعض سخت لفظ پاؤگے اور تعجب کروگے کہ اس قدر سختی اس کی نسبت کیوں اختیار کی گئی۔ مگر یہ تعجب اُس وقت فی الفور دور