کوئی مدد کرے مگر ان تمام آرزوؤں سے نا مراد رہ کر اِس ذلت کے ساتھ مر گیا کہ کوئی مراد اُس کی پوری نہ ہوئی*۔اور میں نے اُس کو بار بار خبر دی تھی کہ الہام3میں ابتر سے مراد خدا تعالیٰ کی یہی ہے کہ آئندہ اولاد کا سلسلہ اُس پر بندہوگا اور اُس کا بیٹا بھی اَبتر ہی مرے گا سو اُس نے دیکھ لیا کہ باوجود اس کے کہ پیشگوئی کے وقت سے بار۱۲ہ سال تک وہ زندہ رہا اور دعائیں بھی کرتا رہا۔ لیکن بجز اُس لڑکے کے جو پیشگوئی کے وقت قریباً پندرہ سال کا تھا اور کوئی اولاد اس کے گھر میں نہ ہوئی اور یہ حسرت بھی ساتھ لے گیا کہ بیٹے کی شادی نہ کر سکا پس پیشگوئی کے مطابق یہ تمام مجموعہ ذلتوں کا اس کے نصیب ہوا۔ اور اسی سعد اللہ کے بارے میں اشتہار انعامی تین ہزار۳۰۰۰ روپیہ مشتہرہ پانچ ؔ اکتوبر ۱۸۹۴ء کے صفحہ ۱۲ پر جو کتاب انوار الاسلام کے ساتھ ملحق ہے خدا تعالیٰ سے الہام پاکر مندرجہ ذیل عبارت میں نے لکھی تھی اور وہ یہ ہے:۔ حق سے لڑتا رہ آخر اے مُردار تو دیکھے گا کہ تیرا کیا انجام ہوگا۔ اے عدوّ اللہ تو مجھ سے نہیں خدا سے لڑ رہا ہے۔ بخدا مجھے اِسی وقت ۲۹؍ستمبر ۱۸۹۴ء کو تیری نسبت یہ الہام ہوا ہے۔ 3۔ اِس الہامی عبارت کا ترجمہ یہ ہے کہ سعد اللہ جو تجھے ابتر کہتا ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ تیرا سلسلہ اولاد اور دوسری برکات کا منقطع ہو جائے گا ایسا ہر گز نہیں ہوگا بلکہ وہ خود ابتر رہے گا۔ یاد رہے کہ یہ فقرہ کہ3 زبان عرب میں بغیر مقابلہ کے نہیں آتایعنی * اب دیکھنا چاہئے کہ اس کی نامرادی اور حسرت اور ذلّت کی موت سے کیسے اس پیشگوئی کے معنی کھل گئے کہ خدا ذلت اور رسوائی کی اس کو موت دیگا جیسا کہ اس واقعہ سے بارہ ۲۱ برس پہلے اس کی نسبت انجام آتھم میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی۔ اٰذ یتنی خُبْثًا فلستُ بصادق ان لم تمت بالخزی یاابن بغاء یعنی تو نے اے سعد اللہ اپنی فطرتی خباثت سے مجھے بہت دُکھ دیا ہے پس میں اس حالت میں سچا نہیں ہوں گا کہ جب ذلّت کے ساتھ تیری موت نہ ہو۔ پس اس سے بڑھ کر ذلّت اور کیا ہوگی کہ وہ میری موت چاہتا تھا مگر میری زندگی میں مر گیا اور میری نامرادی چاہتا تھا مگر میرے اقبال اور ترقی کو دیکھ گیا۔ منہ