بلکہ لاکھوں انسانوں کو اس کے تابع دیکھ گیا اور وہ جماعت جس کی بربادی اور تباہی کے لئے اُس نے پیشگوئی کی تھی اُس کی غیر معمولی اور معجزانہ ترقی کو اُس نے بچشم خود دیکھ لیا اور صرف اسی قدر نہیں بلکہ وہ یہ بھی دعائیں کرتا تھا کہ الہام 3 کے برخلاف اپنی بہت سی اولاد دیکھ لے گا۔ لیکن اُس کی اولاد ہو کر مرتی گئی اور یہ ایک دل خراش دُکھ تھاجو اُس نے بار بار دیکھا اور الہام 3 کے بعد کوئی لڑکا اس کے گھر میں پیدا نہ ہوا اور صرف وہ ؔ بیٹا رہا جوپیشگوئی سے پہلے پیدا ہو چکا تھا اور بڑی عمر تک پہنچ گیا اور اب تک شادی اور بیاہ کا نام تک نہیں چہ جائیکہ اولاد ہو۔
اس حسرت پر اُس کے یہ اشعار کافی ہیں جو اُس کی ایک مناجات میں ہیں جن کی قاضی الحاجات سُرخی ہے اور وہ یہ ہیں:۔
جگر گوشہ ہا دادی اے بے نیاز
ولے چند زانہا گرفتی تو باز
دل من بنعم البدل شاد کن
بلُطف از غم و غصّہ آزاد کُن
ز ازواج و اولادم اے ذوالمنن
بود ہر یکے قُرّۃالعینِ من
جگر پار ہائے کہ رفتند پیش
ز مہجورئ شان دلم ریش ریش
ان درد ناک اشعار پر نظر ڈال کر ہر ایک شخص سوچ سکتا ہے کہ اولاد نہ ہونے اور مرجانے سے کس قدر حسرتیں اُس کے دل میں بھری ہوئی تھیں جن سے وہ نجات نہ پا سکا اور جیسا کہ اُس کی کتاب سے ثابت ہوتا ہے سولہ۱۶ برس تک اپنی کثرت اولاد کے لئے اور میری موت اور تباہی کے لئے وہ دعائیں کرتا رہا۔ آخر جنوری ۱۹۰۷ء کے پہلے ہفتہ میں ہی اُن تمام دُعاؤں سے نامراد رہ کر چند گھنٹہ میں لدھیانہ میں نمونیا پلیگ سے مر گیا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ میری زندگی میں اُس کی موت ہو بلکہ یہ چاہتا تھا کہ اُس کی زندگی میں میری موت ہو اس بارے میں اُس نے پیشگوئی بھی شائع کی اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ میرے اولاد ہو یا میری جماعت ترقی کرے اور اپنی اولاد کی کثرت چاہتا تھا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ میرے سلسلہ کی