لڑکاؔ نہ ہوا اورنہ اُس کے لڑکے کی اولاد ہوئی۔ کیا اِس واقعہ سے پیشگوئی کے اثر کی کچھ بھی بُو نہیں آتی کہ پیشگوئی کے بعد تخمیناً بارہ ۱۲ سال تک سعد اللہ زندہ رہا اور جو رو رکھتا تھا مگر پھر بھی اولاد کا ہونا ایسا رُک گیا جیسا کہ ایک سیلاب کے آگے بندھ لگایا جاتا ہے اور لڑکا جو پیشگوئی سے پہلے بعمرپندرہ ۱۵ سال موجود تھا وہ بھی تیس سال تک پہنچ گیا اور شادی تک نوبت نہ آئی اور سعد اللہ ایک جوان مضبوط تھا اور اس لائق تھا کہ پیشگوئی کے بعد کئی لڑکے اس کے گھر میں پیدا ہو جاتے لیکن پیشگوئی کے بعد موت کے دن تک اس کے گھر میں کوئی زندہ رہنے والا لڑکا پیدا نہیں ہوا اورنہ اس کے لڑکے کے گھر میں کچھ اولاد ہوئی بلکہ اب تک وہ شادی سے محروم ہے اور سُنا گیا ہے کہ اس کی عمرتیس۳۰ برس یا اس سے زائد ہے۔ پس پیشگوئی نے اپنی سچائی کو ظاہر کر دیا کہ پیشگوئی کے بعد خدا تعالیٰ نے سعد اللہ کے گھر میں نسل کاپیداکرنا روک دیا۔ ہر ایک شخص جو کچھ حیا اور شرم کا مادہ اپنے اندر رکھتا ہے وہ سمجھ سکتا ہے کہ پیشگوئی کے ساتھ ہی آئندہ بارہ ۱۲برس تک سلسلہ اولاد کاقطع ہو جانا اور اُسی حالت میں سعد اللہ کا مر جانا یہ ایسا امر نہیں ہے کہ نظر انداز کیا جائے جس حالت میں بد قسمت سعد اللہ کے ان کلمات کے بعد جو اُس نے میری نسبت کہے یعنی یہ کہ گویا میں مع اپنی تمام اولاد کے ہلاک ہو جاؤنگا اورکچھ بھی میرا باقی نہیں رہے گا اور جماعت درہم برہم ہو جائے گی خدا نے اس کی نسبت یہ الہام دیا کہ 3یعنی تو ابتر نہیں ہوگا بلکہ تیرا بد گو ہی ابتر رہے گا۔ تو اب دیکھنا چاہیئے کہ اس پیشگوئی کا نتیجہ کیا ہوا۔ صاف ظاہر ہے کہ نتیجہ یہ ہوا کہ بد قسمت سعد اللہ ابتر کے لفظ کے ہر ایک معنی کی رو سے جو لغت میں کئے گئے ہیں خدا تعالیٰ کے قہر اور غضب کا مورد ہو گیا اپنے ارادہ میں خائب و خاسر رہا جیسا کہ ابترکے لفظ کے ایک یہ بھی معنی ہیں اور ابھی ہم یہ معنی بھی لکھ چکے ہیں۔ دوسرے یہ معنی بھی اُس پر صادق آئے کہ آخر کار پادریوں کا نوکر ہو کر جو دین اسلام کی توہین میں ہر وقت لگے رہتے ہیں ذلت کی زندگی اختیار کی اور وہ خیر اور برکت جو ایک غیرت مند اسلام کے حصہ میںآتی ہے اس سے بے نصیب ہو گیا۔ یہ اس کا نتیجہ تھا کہ محض شرارت اور دنیاداری سے حق کی مخالفت پر کمر بستہ تھا۔ لہذا اس پر یہ رجعت پڑی کہ میری اطاعت کا جُوَا