اولاؔ د مر جاتی تو ملک میں ایک کہرام مچ جاتا۔ کیونکہ معجزہ کے طورپرہزار ہا بچوں کا مر جانا اور پھر لاولد ہونے کی حالت میں ان کے باپوں کا مرنا یہ ایسا معجزہ نہیں تھا جو مخفی رہ سکتا اور ضرور تھا کہ احادیث اور تاریخوں کی کتابوں میں اس کا ذکر ہوتا۔ پس اس سے یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اکثر اُن کے اولاد چھوڑ کر مر گئے تھے اور بعد میں پیشگوئی کے مطابق آہستہ آہستہ اُن کی نسل منقطع ہو گئی پس قرآن شریف کی یہ پیشگوئی جو قریش کے کافروں کے حق میں تھی یعنی 3 ۱؂ یہ بعینہٖ اسی رنگ کی پیشگوئی ہے جو میں نے خدا تعالیٰ سے الہام پاکر سعد اللہ لودھیانوی کے حق میں کی تھی۔ پس اسی طرح اُس کا ظہور ہوگا جس کے کان سُننے کے ہوں سُنے۔ بقیہ ترجمہ لسان العرب کا یہ ہے کہ ابتر مفلس کو بھی کہتے ہیں اور اس شخص کو بھی جو خسارہ میں ہو۔ اور اُن چیزوں کو ابتر کہتے ہیں جو مشکیزہ اور بوکا وغیرہ میں سے قبضہ نہ رکھتے ہوں۔ اِس تمام تحقیق سے ظاہر ہے کہ اوّل تو ابتر کا لفظ بے فرزند ہونے کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر ایک بد نصیب اور نامراد جوناکام اور زیان کار رہے اس کو بھی ابتر کہتے ہیں جیسا کہ سعد اللہ اپنے کاموں میں نامراد گیا اور میرے مقابل پر جو کچھ اس کی آرزو تھی سب میں اس کو نامرادی نصیب ہوئی جیسا کہ ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔ علاوہ اس کے تحقیق متذکرہ بالا کی رو سے ثابت ہو گیا کہ ابتر ہونے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ انسان ایسی حالت میں مرے جبکہ کوئی اُس کی اولاد نہ ہو بلکہ اگر بعد میں بھی اس کی اولاد کا سلسلہ منقطع ہو جائے اور پوتے سے آگے نہ چلے تب بھی وہ ابتر کہلاتا ہے جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ قریش کے صدہا خبیث طبع لوگوں نے آنحضرت صلعم کا نام ابتر رکھا تھا اور وہ لوگ صاحبِ اولاد تھے اور اسلامی تاریخ میں ثابت نہیں کیا گیا کہ ان کی حیات میں ہی اُن کے بیٹے اور پوتے ہلاک ہو گئے تھے بلکہ بعد میں آہستہ آہستہ ان کا قطع نسل ہو گیا تھا سو وہ پیشگوئی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر ظاہر ہوئی اس کا بھی یہی منشاء تھا کہ آخرکار سعد اللہ کی قطع نسل ہو جائے گی۔ چنانچہ اس کے علامات بھی ظاہر ہو گئے کہ باوجود اس کے کہ پیشگوئی پر بارہ ۱۲سال کے قریب مدت گذر گئی تب بھی سعد اللہ کے گھر میں پیشگوئی کے بعد