اورابن عباس کی حدیث میں ہے کہ جب ؔ ابن اشرف مکہ میں آیا تو اُس کو قریش نے کہا کہ تو سب مدینہ والوں سے بہتر اور اُن کا سردار ہے۔ اُس نے کہا کہ ہاں میں ایسا ہی ہوں تب قریش نے کہا کہ کیا تو اس شخص کی طرف نہیں دیکھتا (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف) یہ ایک کمزور اور ضعیف اور گمنام شخص ہے نہ اس کا کوئی بیٹا اور نہ کوئی بھائی اور نہ کوئی دوستوں کی جماعت اس کے ساتھ ہے بلکہ ایک فرد واحد اکیلی جان ہے اور قوم میں سے کاٹا ہوا ہے یعنی قوم نے بباعث مخالفت مذہب اپنی جماعت میں سے اس کو خارج کر دیا ہے اور فتویٰ دے دیا ہے کہ کوئی اس کے ساتھ میل ملاپ نہ کرے اور نہ کوئی اس کی ہمدردی کرے اور باوجود اس بات کے کہ یہ شخص کچھ بھی عزت نہیں رکھتا اور اس کو کوئی جانتا نہیں کہ کون ہے پھر یہ گمان کرتا ہے کہ ہم سے بہتر ہے۔ لیکن ہم ایک معزز جماعت ہیں تمام حج کرنیوالے ہم میں سے ہیں اور ہم اُن کے سردار ہیں اور خانہ کعبہ کے متولّی اور خادم بھی ہم ہی ہیں اور حاجیوں کو پانی پلانے کا شرف بھی ہمیں ہی حاصل ہے مگر یہ شخص تو کسی شمار میں نہیں۔ جب یہ تمام باتیں ابن الاشرف نے سنیں تو اُس بد بخت نے جواب دیا کہ درحقیقت تم اس شخص سے جو پیغمبری کا دعویٰ کرتاہے بہتر ہو۔ تب خدا تعالیٰ نے اُس کے حق میں اور قریش کی اُس تمام جماعت کے حق میں جو ابتر کہتی تھی فرمایا کہ3 ۱ یعنی ابن الاشرف نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتر کہا اور قریش کے کفّار نے بھی ابتر کہا یہ خود ابتر ہیںیعنی ان کی اولاد کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا اور ہر ایک خیرو برکت سے محروم مریں گے۔ اس بات کو تو آج تک کوئی ثابت نہیں کر سکا کہ وہ تمام قریش کے لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتر کہتے تھے اُن کی زندگی میں ہی اُن کے تمام لڑکے مر گئے تھے یا اُن کی اولاد نہیں تھی کیونکہ اگر اُن کی اولاد نہ ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر گز وہ لوگ ابترنہ کہتے۔ یہ بات کوئی عقلمند قبول نہیں کر سکتا کہ ایک شخص خود ابتر ہو کر دوسرے کو ابتر کہے پس ماننا پڑتا ہے کہ اُن کی اولاد موجود تھی اور یہ دوسرا امر کہ پیشگوئی کے مطابق اُن لوگوں کی اولاد اُن کی زندگی میں ہی مر گئی تھی یہ امر بھی قرین قیاس نہیں اور عقل اس کو ہر گز باور نہیں کر سکتی۔ کیونکہ ایسا کہنے والے نہ ایک نہ دو بلکہ صدہا شریر النفس اور خبیث الطبع آدمی تھے جن کی اولاد کی ہزار ہا تک نوبت پہنچی تھی۔ پس اگر اُن کی زندگی میں ہی اُن کی تما م