ترجمہ ؔ : بتر کہتے ہیں ایک چیز کا جڑھ سے کاٹ دینا۔ دوسرے معنی بتر کے یہ ہیں کہ دُم وغیرہ کو کاٹ دینا۔ (۱) ابتر اُس کو کہتے ہیں جس کی دُم کاٹی گئی ہو۔ (۲) سانپوں کی اقسام میں سے ایک قسم کے سانپوں کا نام ابتر ہے اِس قسم کے سانپ کو شیطان کہتے ہیں اگر حاملہ عورت اُس کو دیکھے تو اُس کا حمل ساقط ہو جاتا ہے (۳) اور حدیث میں ہے کہ ہر ایک امر شاندار جس کو حمد الٰہی سے شروع نہ کیا جاوے وہ ابتر ہے۔ (۴) اور ابتر اُس کو بھی کہتے ہیں کہ جو عقب نہ رکھتا ہو یعنی اُس کا کوئی بیٹا نہ ہو یا بیٹے کا بیٹا نہ ہو۔ لسان العرب میں لکھا گیا ہے کہ عقب ولد کو بھی کہتے ہیں اور ولد الولد کو بھی کہتے ہیں۔ پس ان معنوں کی رو سے جس کا بیٹا نہیں وہ بھی ابتر ہے اور جس کے بیٹے کے آگے بیٹا نہیں وہ بھی ابتر ہے مگر جس کے کئی بیٹوں میں سے کسی بیٹے کی نسل چل جائے اُس کو ابتر نہیں کہہ سکتے۔ پس جو شخص مر جائے اور ایسا کوئی بچہ نہ چھوڑے اُس کا نام بھی ابتر ہے اور اس کے موافق خدا تعالیٰ کے اس قول کی تفسیر کی گئی ہے کہ 3 ۱ یہ آیت عاص بن وائل کے حق میں نازل ہوئی تھی۔ وہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ بیٹھے ہوئے تھے۔ پس عاص بن وائل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ ابتر ہے یعنی اس کا کوئی لڑکا نہیں ہے اور نہ لڑکے کا لڑکا۔ تب خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اے محمد جو تیرا بد گو ہے وہی ابتر ہے یعنی مقدّر یوں ہے کہ جس اولاد پر وہ ناز کرتا ہے آخر اُس کی اولاد فنا ہو جائے گی۔ گواُس کی زندگی میں یا بعد اُس کے۔ اور سلسلہ نسل ختم ہوجائے گا۔ یہ تو ظاہر ہے کہ عاص بن وائل اولاد رکھتا تھا کیونکہ اگر وہ ابتر یعنی بے اولاد ہوتا تو یہ غیر معقول بات تھی کہ باوجود آپ ابتر ہونے کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ابتر رکھتا۔ پس خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہ پیشگوئی تھی کہ انجام کار اس کی نسل قطع ہو جائے گی۔ گو اُس کی زندگی میں ہو یا بعد اُس کے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ وہ اولاد چھوڑ کر مر گیا تھا لیکن بعد اُس کے اُس کی اولاد کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ کیونکہ اگر اولاد اُس کے رو برو مرتی تو ضرور اُس کا ذکر کیا جاتا۔ اور باقی ترجمہ یہ ہے کہ اس جگہ ابتر کے یہ معنی بھی جائز ہیں کہ ابتر اُس کو کہتے ہیں کہ ہر ایک خیر سے محروم اور بے نصیب ہو