ؔ بجز لفظ ابتر کے اور کوئی لفظ مقرر نہیں۔ اہل عرب اُس شخص کو بہر حال ابتر ہی کہتے ہیں جس کی اولاد اُس کی زندگی میں یا بعد اس کے اپنی موت کی وجہ سے اس کو لاولد کے نام سے موسوم کرے بلکہ ہر ایک ملک میں ایسے شخص کا نام بہر حال ابتر ہی ہے جس کی نسل باقی نہ رہے اور منقطع النسل کرکے پکارا جائے اور ائمہ لغت عرب میں سے کسی نے یہ بیان نہیں کیا کہ ابتر ہونے کے لئے لازمی طور پر یہ شرط ہے کہ ایک شخص کے اولاد ہو کر اس کی زندگی میں ہی مر جائے۔ اور اگر کسی کی اولاد اس کی زندگی میں فوت نہ ہو مگر اُس کے مرنے کے بعد فوت ہو کر قطع نسل کر دے تو کیا عرب کی زبان میں ایسے شخص کو کسی اور نام سے موسوم کرتے ہیں۔ بلکہ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں اِس لفظ کے اصل مادہ میں بہت وسعت ہے کیونکہ عربی میں بتر صرف جڑھ کاٹ دینے کو کہتے ہیں۔ واضح ہو کہ عرب کی زبان میں ابتر کا لفظ ایک وسیع لفظ ہے لسان العرب میں لکھا ہے: البتر استیصال الشیء قطعًا۔ البتر قطع الذنب و نحوہٗ۔ الابتر المقطوع الذنب۔ والابتر من الحیات الذی یقال لہ الشیطان۔ لا تبصرہ حامل الّا اسقطت۔ وفی الحدیث کل امرٍ ذی بال لا یبدء فیہ بحمد اللّٰہ فھوابتر۔ و الابتر الذی لا عقب لہ وبہ فسّرقولہ تعالٰی3 ۱؂ نزلت فی العاص ابن وائل وکان دخل علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلّم وھو جالس فقال ھٰذا الابتر ای ھٰذا الذی لا عقب لہ فقال اللّٰہ جلّ ثناۂٗ ان شانئک یا محمد ھو الا بتر ای المنقطع العقب و جائز ان یکون ھو المنقطع عنہ کل خیرٍ۔ وفی حدیث ابن عباس قال لمّا قدم ابن اشرف مکۃ۔ قالت لہ قریش انت خیر اھل المدینۃ وسیّدھم قال نعم قالوا الا تریٰ ھذا الصُّنَیر الابیتر عن قومہ یزعم انہ خیر منّا ونحن اھل الحجیج و اھل السدانۃ واھل السقایۃ قال انتم خیر منہ۔ فانزلت3 3۔ والا بترالمُعدِم۔ والابتر الخاسِرُ و ا لا بتر ھوالذی لا عروۃ لہ من المراد والدِّ لَاءِ ۔