بیہوؔ دہ گوئی اور حماقت ہے۔ اس مقدمہ کی یہ صورت تو نہیں ہے کہ پیشگوئی کے بعد لڑکا پیدا ہوگیا بلکہ وہ لڑکا جو اب موجود ہے پیشگوئی کے وقت میں پندر۱۵ہ یا چودہ۱۴ برس کا تھا اور اب تیس ۳۰یا انتیس۲۹ برس کا ہوگا۔پس جبکہ پیشگوئی کے زمانہ میں یہ لڑکا موجود تھا تو ایک عقلمند صاف سمجھ سکتا ہے کہ اس پیشگوئی کا یہ مطلب ہے کہ یہ لڑکا کالعدم ہے اور اس کے بعد نسل کا خاتمہ ہے اور یہی خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے تفہیم ہوئی تھی۔ ملہم سے زیادہ کوئی الہام کے معنی نہیں سمجھ سکتا اور نہ کسی کا حق ہے جو اس کے مخالف کہے۔ پس جبکہ خدا تعالیٰ نے اِس پیشگوئی کے یہی معنی کھولے کہ یہ لڑکا کالعدم ہے اور اس کے بعد سعد اللہ کی نسل نہیں چلے گی اور اسی پر سعد اللہ کی نسل کا خاتمہ ہو جائے گا تو پھر کس قدر ہٹ دھرمی ہے کہ یہ کہنا کہ سعد اللہ اپنی موت کے بعد لڑکا چھوڑ گیا۔
اے نادان ! یہ لڑکا تو پیشگوئی کے وقت موجود تھااور محاورات عرب کو بالاستقصاء دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ اَبتر کے لفظ میں یہ شرط نہیں ہے کہ کوئی شخص صاحب اولاد اس حالت میں مرے کہ جب اس کی زندگی میں اس کی اولاد فوت ہو جائے بلکہ نسل کی جڑھ کٹ جانا شرط ہے جیسا کہ بتر کے معنی لغت عرب میں یہ لکھے ہیں کہ البتر: استیصال الشَّیءِ قطعًا یعنی بتر کہتے ہیں کسی چیز کو جڑھ سے کاٹ دینے کو۔ پس اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ پیشگوئی آئندہ نسل کے لئے تھی۔ یعنی یہ کہ موجودہ لڑکے سے آئندہ نسل نہیں چلے گی جیسا کہ ہم آئندہ تصریح سے بیان کریں گے۔ پس جس شخص کی فطرت میں ایک ذرّہ عقل اور حیا ہے وہ سمجھ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کسی کی نسبت یہ پیشگوئی کرنا کہ فلاں شخص منقطع النسل ہو جائے گا۔ اس پیشگوئی کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس کی زندگی میں ہی وہ تمام نسل مر جائے کیونکہ اگر یہی شرط ہو تو پھر ایسی صورت میں ایسی قطع نسل کا کیا نام رکھنا چاہئے کہ ایک انسان ایک یا دو ولد چھوڑ کر مر جائے اور بعد اس کے کسی وقت وہ لڑکے بھی مر جائیں اور کچھ نسل باقی نہ رہے کیا عرب کے محاورات میں بجز ابتر کے لفظ کے ایسی صورت میں کوئی اور لفظ بھی موجود ہے اور کیا یہ کہنا جائز ہوگا کہ ایسا شخص منقطع النسل نہیں اور لفظ استیصال الشَّیءِ قطعًا اُس پر لازم نہیں آتا۔ پس ظاہر ہے کہ ایسا خیال حماقت اور دیوانگی ہے۔ اور زبان عرب میں اس قسم کے قطع نسل کے لئے