3 یعنی تیرے بد گو دشمن سعد اللہ کی قطع نسل کی جائے گی۔ پھرتُو اپنے لڑکے کی کیوں کسی جگہ شادی نہیں کرتا تا نسل جاری ہو۔ پس قریب قیاس ہے کہ ان بار بار کی ملامتوں کو سن کر سعد اللہ نے کسی جگہ اپنے لڑکے کی نسبت کر دی ہو۔ مگر شادی کی ابھی طیاری ہو رہی تھی کہ سعد اللہ کی دوسرے جہان کی طرف طیاری ہو گئی۔ پس سعد اللہ کا شادی کا نام لیتے ہی مر جانا یہ بھی ایک نامرادی ہے۔ پس اس میں کیا شک ہو سکتاہے کہ وہ میری پیشگوئی کے مطابق نامراد مرا۔ اوربلاشبہ یہ ایک ذلّت کی موت ہے کہ وہ پیشگوئی کے اس مفہوم کو اپنی کوشش سے دور نہ کر سکا کہ آئندہ اس کی نسل نہیں چلے گی اور نہ اس پیشگوئی کو اپنی طاقت سے رفع کر سکا کہ میری زندگی میں ہی اس کی موت ہوگی اور میری ہر ایک ترقی کو دیکھ کر مرے گا۔ اور مولوی ثناء اللہ صاحب کا اپنے اخبار ۸؍فروری ۱۹۰۷ء میں ابتر کی پیشگوئی کو ردّ کرنے کے لئے یہ عذر پیش کرنا کہ سعداللہ ایک لڑکا چھوڑ گیا ہے پھر کیونکر اس کو ابتر کہہ سکتے ہیں۔ یہ اس کا ایسا بیان ہے جس سے سمجھا جاتا ہے کہ یا تو اُس نے خود دھوکہ کھایا یا عمداً لوگوں کو دھوکہ دینا چاہتا ہے۔ کیونکہ ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے اپنی وحی کے ذریعہ سے میرے پر ظاہر کیا ہے وہ سعد اللہ کی موجودہ حالت کی نسبت بیان نہیں اور ہر ایک کو معلوم ہے کہ پیشگوئی کے وقت میں سعد اللہ کا لڑکا بعمرپندرہ سال یا چودہ سال موجود تھااور باوجود لڑکے کے موجود ہونے کے خدا تعالیٰ نے اپنی پیشگوئی میں اس کا نام ابتر رکھا تھا اور فرمایا تھا کہ 3یعنی خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ تیرا بد گوہی ابتر ہوگا نہ کہ تُو۔ چونکہ سعد اللہ اپنی تحریروں میں بار بار میری نسبت یہ ظاہرکرتا تھا کہ یہ شخص مفتری ہے جلد تباہ ہو جائے گا اور کچھ بھی اس کا باقی نہیں رہے گا۔ پس خدا تعالیٰ نے اس کے ان الفاظ کے مقابل پر جو محض شوخی اور شرارت سے بھرے ہوئے تھے یہ فرمایا کہ آخر کار وہ خود تباہ ہو جائے گا اس کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ پس پیشگوئی کے معنی پیشگوئی کو مدّ نظر رکھ کر کرنے چاہئیں پیشگوئی نے موجودہ لڑکے کو کالعدم قرار دے کر قطع نسل کا وعدہ دیا ہے اور یہ اشارہ کیا ہے کہ اس لڑکے کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ پس اس جگہ قاموس وغیرہ کا ابتر کے معنی کے بارے میں حوالہ دینا صرف