کا باؔ عث صرف اُس کی گالیاں نہیں تھیں بلکہ بڑا باعث یہ تھا کہ وہ میری موت کا خواہاں تھا اور اپنی نظم و نثر میں میرے لئے بد دعائیں کرتا تھا۔ اور اپنی سفاہت اورجہالت سے میری تباہی اور ہلاکت کو بدل چاہتا تھا اور لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین میرے حق میں اُس کا ورد تھا۔ اور تمنا کرتا تھا کہ میں اس کی زندگی میں تباہ ہو جاؤں اور ہلاک ہو جاؤں اور یہ سلسلہ زوال پذیر ہو جائے اور اس وجہ سے جھوٹا ٹھہروں اور مخلوق کی *** کا نشانہ بنوں۔ اور اگرچہ یہ تمنا ہر ایک دشمن میں پائی جاتی ہے کہ وہ میری موت دیکھیں اور اُن کی زندگی میں میری موت ہو لیکن یہ شخص سب سے بڑھ گیا تھا اور ہر ایک بدی کے لئے جب بد قسمت مخالف قصد کرتے تھے تو وہ اس منصوبہ سے پورا حصہ لیتا تھا اور میں باور نہیں کر سکتا کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کسی نے ایسی گندی گالیاں کسی نبی اور مرسل کو دی ہوں جیسا کہ اُس نے مجھے دیں۔ چنانچہ جس شخص نے اُس کی مخالفانہ نظمیں اور نثریں اور اشتہار دیکھے ہوں گے اس کو معلوم ہوگا کہ وہ میری ہلاکت اور نابود ہونے کے لئے اور نیز میری ذلت اور نامرادی دیکھنے کے لئے کس قدر حریص تھا اور میری مخالفت میں کہاں تک اُس کادل گندہ ہو گیا تھا پس ان تمام امور کے باعث میں نے اس کے بارے میں یہ دعا کی کہ میری زندگی میں اس کو نامرادی اور ذلّت کی موت نصیب ہو۔ سو خدا نے ایسا ہی کیا اور جنوری ۱۹۰۷ء کے پہلے ہی ہفتہ میں چند گھنٹہ میں نمونیا پلیگ سے اس جہان فانی سے ہزاروں حسرتوں کے ساتھ کوچ کر گیا۔
چنانچہ اخبار اہل حدیث کے اڈیٹر مولوی ثناء اللہ صاحب نے اپنے اخبار کے صفحہ ۴ میں سعد اللہ کی موت پر حسرت کی طرف ان الفاظ سے اشارہ کیا ہے کہ اس کے لڑکے کی نسبت حاجی عبد الرحیم کی دختر سے ہو چکی تھی اور عنقریب شادی ہونیوالی تھی کہ سعد اللہ کا انتقال ہو گیا۔ اور سعد اللہ کو یہ بھی نصیب نہ ہوا کہ اپنے لڑکے کی شادی دیکھ لیتا جبکہ اُس کا ایک ہی لڑکا تھا اور شادی کا تمام سامان اُس نے اکٹھا کر لیا تھا اور چند روز میں ہی اس منحوس کام کو انجام دینے کو طیار تھا کہ فرشتہ ملک الموت نے آپکڑا۔ اور یہ قول مولوی ثناء اللہ صاحب کا قرین قیاس ہے کیونکہ ہماری جماعت کے بعض صاحبوں نے بار بار اس کو یہ کہہ کر ملزم کیا تھا کہ تیری نسبت قریباً تیرہ۱۳ سال سے مسیح موعود کو یہ الہام ہو چکا ہے کہ