میںؔ وہ مرحومہ اُسی مرض سے اس ناپائیدار دنیا سے گذر گئیں۔ اس پیشگوئی سے نواب صاحب کو بھی قبل از وقت خبر دی گئی تھی اور ہمارے فاضل دوست حکیم مولوی نور دین صاحب اور مولوی سید محمد احسن صاحب اور اکثر معزز اس جماعت کے اس پیشگوئی پر اطلاع رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتاہے۔3 3 ۱ یعنی خدا تعالیٰ صاف صاف اور کھلا کھلا غیب بجز اپنے رسولوں کے کسی پر ظاہر نہیں کرتا اور ظاہر ہے کہ دعوے کے ساتھ کسی پیشگوئی کو بتمام تر تصریح شائع کرنا اور پھر اُس کا اُسی طرح بکمال صفائی پورا ہونا اس سے زیادہ روشن نشان کی اور کیا علامت ہو سکتی ہے۔
(۲) منجملہ اُن نشانوں کے دوسرا نشان یہ ہے کہ مجھ کو ۳۰؍جولائی ۱۹۰۶ء میں اور بعد اس کے اور کئی تاریخوں میں وحی الٰہی کے ذریعہ سے بتلایا گیا کہ ایک شخص اس جماعت میں سے ایک دم میں دُنیا سے رخصت ہو جائے گا اور پیٹ پھٹ جائے گااور شعبان کے مہینہ میں وہ فوت ہوگا۔ چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق شعبان ۱۳۲۴ھ میں میاں صاحب نور مہاجر جو صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف صاحب کی جماعت میں سے تھایک دفعہ ایک دم میں پیٹ پھٹنے کے ساتھ مر گیا اور معلوم ہوا کہ اُس کے پیٹ میں کچھ مدت سے رسولی تھی لیکن کچھ محسوس نہیں کرتا تھا اور جوان مضبوط و توانا تھا یک دفعہ پیٹ میں درد ہوا اور آخری کلمہ اُس کا یہ تھا کہ اُس نے تین مرتبہ کہا کہ میرا پیٹ پھٹ گیا بعد اس کے مر گیا اور جیسا کہ پیشگوئی میں تھا شعبان کے مہینہ میں ایک دَم میں اُس کی جان رخصت ہو گئی۔ یہ پیشگوئی قبل از ظہور اخبار بدر اور الحکم میں شائع کرا دی گئی تھی۔
(۳) منجملہ اُن نشانوں کے سعد اللہ لودھیا نوی کی موت ہے جو پیشگوئی کے مطابق ظہور میں آئی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب منشی سعد اللہ لدھیانوی بدگوئی اور بد زبانی میں حد سے بڑھ گیا اور اپنی نظم اور نثر میں اس قدر اُس نے مجھ کو گالیاں دیں کہ میں خیال کرتا ہوں کہ پنجاب کے تمام بد گو دشمنوں میں سے اوّل درجہ کا وہ گندہ زبان مخالف تھا۔ تب میں نے اُس کی موت کے لئے جناب الٰہی میں دعا کی کہ وہ میری زندگی میں ہی نامراد رہ کر ہلاک ہو* ۔اور ذلت کی موت سے مرے۔ اس دعا
* جیسا کہ میںآگے چل کر بیان کروں گا اس شخص یعنی سعد اللہ نے میری موت کی پیشگوئی کی تھی اور شائع کیا تھا کہ میں اس کی زندگی میں ہی ذلّت کے ساتھ مروں گا اور میں نے شائع کیا تھا کہ وہ میری زندگی میں مرے گا آخر کار میرے خدا نے مجھے سچا کیا اور وہ جنوری ۱۹۰۷ء کے پہلے ہفتہ میں ہی مر گیا اور ذلّت اور حسرت کو ساتھ لے گیا۔ منہ