معرؔ فت کلکتہ اور بمبئی اور مدراس میں اُن کا رخانوں کی طرف چٹھیات لکھی گئیں جہاں تحریروں کے فوٹو لئے جاتے ہیں اگرچہ اس قدر گراں نرخ بیان کیا گیا کہ 3پچاس روپے فی صفحہ فوٹو لینے کے لئے مطالبہ ہوا تاہم ہم نے سب کچھ منظور کیا۔ یہی باعث تھا کہ کتاب حقیقت الوحی کے شائع ہونے میں بہت تاخیر ہو گئی۔ بالآخر خدا تعالیٰ کے فضل سے اس تحریر کا عکس لینے میں ہم کامیاب ہوئے چنانچہ وہ عکس اس تتمہ کے ساتھ شامل کر دیا گیا ہے اور اصل تحریر چراغ دین کی جو مباہلہ کی عبارت ہے بلکہ تمام کتاب اُس کی دستخطی ہمارے پاس محفوظ ہے جس کا جی چاہے دیکھ لے اور جو شخص چراغ دین کی تحریر کو شناخت کرتا ہے اس کے لئے ضروری نہیں کہ وہ اس مضمون کو جو چراغ دین کا دستخطی ہمارے پاس محفوظ ہے دیکھے۔ بلکہ وہ صرف اس کا عکس دیکھ کر مطمئن ہو جائے گا۔
(۲) دوسرا امر جو اس تتمہ میں لکھنے کے لائق ہے وہ چند پیشگوئیاں ہیں جو کتاب حقیقت الوحی کے تمام کرنے کے بعد پوری ہوئیں۔ اور ایک ان میں سے وہ پیشگوئی بھی ہے کہ جو گذشتہ زمانہ کا ایک نشان ہے اور نشانوں کے تحریر کے وقت اُس کا لکھنا یاد نہیں رہا تھا اس لئے اب تتمہ میں لکھا گیا ہے کیونکہ وہ ایک بڑا نشان ہے اور اکثر اشد دشمن اور مخالف اس راقم کے اس کے گواہ ہیں۔ اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اس نشان کو بھی ان نشانوں کے ساتھ اس تتمہ میں لکھ دوں اور وہ یہ ہیں:۔
اوّل۔ منجملہ ان نشانوں کے یہ نشان ہے کہ نواب محمد علی خان صاحب رئیس کوٹلہ مالیر کی نسبت میرے پر خدا تعالیٰ نے یہ ظاہر کیا کہ اُن کی بیوی عنقریب فوت ہو جائے گی اور موت کی خبر دے کر یہ بھی فرمایا کہ درد ناک دُکھ اور درد ناک واقعہ مَیں نے اس خبر سے سب سے پہلے اپنے گھر کے لوگوں کو مطلع کیا اور پھر دوسروں کو اور پھر اخبار بدر اور الحکم میں یہ پیشگوئی شائع کرا دی اور یہ اُس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی تھی جبکہ نواب صاحب موصوف کی بیوی بہر طرح تندرست اور صحیح و سالم تھی۔ پھر تخمیناً چھ ماہ کے بعد نواب محمد علی خانصاحب کی بیوی کوسل کی مرض ہو گئی اور جہاں تک ممکن تھا اُن کا علاج کیا گیا۔ آخر رمضان ۱۳۲۴ ھ