دروازہ بند ہوجاوے کیونکہ ایسے وقت میں جبکہ شرارت انتہا کو پہنچتی ہے اور قطعی فیصلہ کا وقت آجاتا ہے تو مخالفوں کے حق میں انبیاء علیہم السلام کی بھی دُعا قبول نہیں ہوتی۔دیکھو حضرت نوح علیہ السلام نے طوفان کے وقت اپنے بیٹے کنعان کے لئے جو کافروں اور منکروں سے تھا دعا کی اور قبول نہ ہوئی (دیکھو سورہ ہود رکوع۲) اور ایسا ہی جب فرعون ڈوبنے لگا تو خدا پر ایمان لایا مگر قبول نہ ہوا۔
ہاں اس خاص وقت سے پہلے اگر رجوع کیا جاوے تو البتہ قبول ہوتا ہے333 ۱ یعنی جب خفیف سے آثار عذاب کے ظاہر ہوں تو اُس وقت کی توبہ قبول ہوتی ہے۔ اس لئے میں بار بار کہتا ہوں کہ ابھی اس عذاب الٰہی کا دُنیا میں صرف آغاز ہی ظاہر ہوا ہے اور اس کا انتہا اور غایت نہایت ہی سخت ہے لہذا لوگوں کو چاہئے کہ اُس خاص ہلاکت کے وقت سے پہلے خدا کی طرف رجوع کر لیں اور خدا اور رسول اور امام وقت کی اطاعت کریں اور توبہ و ترک معصیّت دعا و استغفار کے ساتھ اس کا دفعیہ چاہیں اور اپنے اندر ایک نیک و پاک تبدیلی پیدا کریں تاکہ اس ہولناک عذاب سے محفوظ رہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہ پختہ وعدہ ہے کہ وہ ایسےؔ وقت میں ہمیشہ مومنوں ہی کو نجات دیا کرتا ہے جیسا کہ فرمایا 3۲ اب ہم اس مضمون کو اس دعا پر ختم کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہم کو اور کُل مومنوں کو اس بلا سے بچاوے اور راہِ راست کی طرف رہنمائی کرے اور باہم صلح و صلاحیّت حاصل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین۔
اب میں اپنی جماعت کے روحانی بھائیوں کی خدمت میں گذارش کرتا ہوں کہ اس غضب الٰہی کی آگ اور ہولناک عذاب سے بچنے کے لئے ہمارے پاس دو سامان ہیں ایک ایمان دوسرا تقویٰ۔ ایمان تو یہ ہے کہ ہم اپنے کامل یقین سے جان لیں کہ ہمارے پاس اس عذاب الٰہی سے بچنے کے لئے اپنے ہادی و مولا حضرت
بقیہ حاشیہ نمبر۱
جن ؔ کا ذکر حدیث شریف اور رؤیا صالحہ میں ہے ایک کا مصداق نہ ہوں۔ ہرگز نہیں۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ ابھی تک میں اپنے اندر مالی یا علمی ایسی استعداد نہیں دیکھتا جس سے میں اپنے تئیں معقولی پیرایہ میں حضرت موصوف کا ناصر قرار دے سکوں۔ کیونکہ یہ عاجز ان دونوں باتوں میں ابھی تک بے سروسامان اور تہیدست ہے لیکن خدا تعالیٰ کے ان وعدوں اور تسلیوں پر جو مجھے دی گئی ہیں ایمان رکھتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کرے گا۔ بلکہ میں کامل یقین سے کہتا ہوں کہ جب تک وہ خدمت جو اس عاجز کے حصہ میں