میں ہر ایک مامور من اللہ کے مکذّبوں کاانجام ہلاکت ہی ہوتا رہا اور ہر ایک اُمّت پر جداگانہ رنگ میں عذاب آجاتارہا تو اس صورت میں ہمیں اس بات کے ماننے میں کہ یہ عذاب اسی مخالفت کا نتیجہ ہے کونسی چیز مانع ہو سکتی ہے۔ ہرگز نہیں بلا شک و شبہ یہ خدا تعالیٰ کا وہی جلالی اور قہری حربہ ہے جو ہمیشہ سے اس کے سچے رسولوں کے مخالفوں کی ہلاکت کے لئے موجود ہو جاتا رہا ہے۔
پس جب اس کا سبب معلوم ہوا تو علاج میں کوشش کرنی چاہئے اور وہ یہ ہے حضرت امام الزمان مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ ماموریت کو مان کر اور ان کی اطاعت کا جُوَا اخلاص دل سے اُٹھا کر اور بصدق دل آپ کے زیر سایۂ ہدایات رہ کر ایک پاک اور زندہ روحانی تبدیلی کو جوہر ایک قسم کے گناہ و بغاوت سے منزّہ ہے حاصل کیا جاوے۔ سو جو شخص یا گھرانہ یا قوم یا اہل شہر ایسا کرلیں گے یقیناًبفضلہ تعالیٰ اس بلا سے نجات پائیں گے کیونکہ ابھی قبو ؔ لیت کا دروازہ کھلا ہے اس لئے جو شخص بصدق دل توبہ کرے گا قبول ہوگی لیکن ایک وقت ایسا بھی آنے والا ہے کہ لوگ توبہ کریں گے مگر قبول نہ ہوگی۔ قومیں خدا کے آگے چلائیں گی پر سُنی نہ جائیگی۔ دُنیا خدا کی طرف رجوع لاوے گی لیکن انجام اس کا مایوسی ہوگی۔ جیسا فرمایا 3 333۱الخ(سورۂ دخان)اور وہ وقت ایسا ہوگا کہ یہ بلا روئے زمین پر عام ہوگی کوئی شہر یا بستی اِلّا ماشاء اللہ اس سے خالی نہ رہے گی بلکہ دریاؤں اور
بقیہ حاشیہ نمبر۱
نورانی وجود آفتاب کی طرح چمکتا ہوا نظرؔ آنے لگا اور اس عاجز نے دیکھا کہ آپ کا چہرہ نہایت ہی خوبصورت اور روشن ہے گویا کہ حضور انور کے چہرہ سے نور ٹپک رہا ہے اور ساتھ ہی اس کے یہ بھی دیکھا کہ حضور کی پوشاک سر سے پاؤں تک نہایت سفید اور برّاق ہے تب میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور آپ اس قدر مہربانی و محبت کے ساتھ پیش آئے کہ مجھے کامل یقین ہو گیا کہ اب میں حضور کے نظر منظور ہوکر عطائے خدمت سے مشرف کیا گیا ہوں یہاں تک کہ میں کیا دیکھتا ہوں کہ میری پوشاک بھی حضور کی پوشاک کی طرح سفید اور برّاق ہو گئی۔ اور ایسا ہی ایک بزرگ نے بعد توجہ اس عاجز کے حق میں یہ رؤیا دیکھی تھی کہ ایک تالاب ہے اور اس کے درمیان ایک پختہ عمارت ہے جس کے اندر سے ایک شعلہ روشنی کا نکل رہا ہے اور وہ بزرگ کہتا ہے کہ میں اس تحقیق کے لئے کہ یہ روشنی کس چیز سے ظاہر ہو رہی ہے اس مکان کے دروازہ پر گیا تو اس کے اندر اس خاکسار کو پایا۔ حاصل کلام