اور فرمایا3 ۱؂ یعنی انتظاری کرو اُس دن کی کہ لاوے آسمان دھوآں ڈھانک لے گا لوگوں کو ۔یہ ہے عذاب درد دینے والا۔ جس دن پکڑیں گے ہم پکڑنا سخت تحقیق ہم بدلہ لینے والے ہیں اور اسی طرح سورۃ قیامت میں فرمایا 3 33333 3۲؂ یعنی چاند اور سورج کو جب ایک ہی مہینے یعنی رمضان میں گہن ہوگا تو اس کے بعد لوگ بھاگنے کی جگہ ڈھونڈیں گے اور نہ پاویں گے۔ سوائے اس کے کتب مقدسہ میں بھی اس زمانہ کے متعلق بہت سی پیشینؔ گوئیاں موجود ہیں۔ دیکھو یسعیاہ باب ۴ ، ۱۵،۶۶ اور ۵۰ زبور ۳ آیت ۔ دانی ایل ب۱۲، حزقی ایل باب۳۷ آیات ۱۵ تا ۲۸۔حبقوق ب ۳۔ صفنیاہ ب۳۔ میکایہ باب۴ ۔متی باب ۱۳ آیت۴۰۔ باب ۲۴ آیات ۱۵ تا ۳۱۔مکاشفات باب۱۵،۱۶۔ ان کتابوں میں اس زمانہ کا پورا اور کامل فوٹو موجود ہے۔ ہاں اگر یہ سوال ہو کہ ہم کیونکر مانیں کہ یہ عذاب امام وقت کی مخالفت کے باعث ہم پر آگیا ہے تو اس کا جواب ہم آیات ذیل سے دیتے ہیں جیسا فرمایا 3333۔۳؂ یعنی ہم کسی بستی کوبھی ہلاک نہیں کرتے جب تک کہ ان کے درمیان کوئی رسول بقیہ حاشیہ نمبر۱ آسماؔ ن سے ملا ہوا تھا۔ اور وہ روشنی سیدھی میری طرف آئی اور جس قدر نزدیک آتی تھی کم ہوتی جاتی تھی یہانتک کہ جب میرے نزدیک پہنچی تو میں نے بجائے روشنی کے صرف واحد شخص کو دیکھا جسکے دونوں ہاتھوں میں نعلین کی صورت پر دو اشیاء پکڑی ہوئی تھیں اور جب اُن کو ہلاتا تھا تو وہ روشنی اُن کے اندر سے نکلتی تھی چنانچہ اُس شخص نے میرے قریب آکر نہایت جذبہ کے ساتھ پُکارا کہ بیماروں کو حاضر کرو۔ اُس کے کہنے پر میں اُس کے آگے سرنگوں ہو گیا اور اُس نے اُس چیز کے ساتھ جو اُس کے ہاتھ میں تھی میرے سرکو مسح کیا اور میں دیکھتا ہوں کہ میرے گلے میں قیدیوں کی طرح لو ہے کی ایک ہیکل پڑی ہے جس کو میں اپنے دونوں ہاتھوں سے کھول رہا ہوں۔ چنانچہ اس کے چند روز بعد پھر پہلے کی طرح کشفی حالت مجھ پر طاری ہوئی اور ایک ایسا سرور میرے دل پر طاری ہوا کہ گویا میں بادشاہ ہوں چنانچہ اسی سرور اور تموّج کی حالت میں ایک روز کشفی طور پر میں خدا کے حضور پہنچایا گیا اور اس وقت مسیحی تعلیم یعنی انجیل کی حقیقت مجھ پر کھولی گئی اور مسیحیوں کی غلط فہمی پر آگاہ کیا گیا اور اس کے ساتھ یہ بات بھی