رہا ہے۔ دنیا کے دم میں دم نہیں رہا۔ مخلوق اپنے بچاؤ کی مختلف تدبیروں میں مشغول ہے مگر افسوس کہ اس کی اصل حقیقت اور علاج سے محض ناواقف ہیں۔
میرے دل میں ہمدردی بنی نوع کا ایک جوش ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس کا حقیقی اور قطعی اور یقینی علاج اس عاجز پر ظاہر فرمایا ہے اس لئے میرا دل و ایمان و ہمدردی بنی نوع انسان مجھے مجبور کر رہی ہے کہ میں اُس اصل علاج کو جو اس آفت کے دفعیہ کے لئے کافی و شافی ہے اور جس کے اندر دُنیا کے بچاؤ کے اسباب موجود ہیں پبلک پر ظاہر کروں تاکہ جن کی قسمت میں اس سعادت سے حصہ لینا مقسوم ہے نجات پائیں۔
پس واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ قریباً عرصہ ایک سال سے اس عاجز پر کشفی رنگ میں ظاہر فرما رہا ہے کہ یہ زمانہ روحانی قیامت یعنی ؔ صلح و صلاحیت کا* زمانہ کا مقدمہ اور آغاز ہے جس کو اہل اسلام کے محاورہ میں فتح اسلام اور مسیحیوں کے نزدیک مسیح کے جلالی نزول اور اس کی بادشاہت کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور وہ ایسا زمانہ ہے کہ جس میں شیطانی تسلط اور دجّالی فتنت دنیا سے اُٹھائی جائے گی اور زمین روز روشن کی طرح خدا کے جلال کی معرفت سے معمور ہوگی اور حقیقی خدا پرستی ابدی راستبازی امن و صلحکاری دنیا میں قائم ہوگی اور قوم قوم سے اور بادشاہ بادشاہ سے لڑائی نہ کریں گے۔ مذہبی مخالفتیں تمام دنیا سے اُٹھ جائیں گی اور اہل دنیا ایک ہی طریق و دین میں ہو کر صلح و صلاحیت کا کامل نمونہ ظاہر کریں گے اور قومیں جسمانی و روحانی نعمتوں سے مالا مال ہو کر نہایت امن و چین کی حالت میں اپنی زندگی بسر کریں گی اور تمام جنگ و جدال فتن و فساد، بغض و عداوت کفرو معصیت ، رنج و مصائب دنیا سے اُٹھائے جائیں گے۔ یہاں تک کہ شیر اور بیل، بھیڑ اور بھیڑیا اب
بقیہ حاشیہ نمبر۱
کی ؔ طرف سے ہے کیونکہ اس نے مجھے امام الزمان مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور آپ کے اس متبرک زمانہ کی چگونگی حالات پر گواہی دینے کے لئے مامور فرمایا ہے جیسا کہ سورہ بروج آیت 3 ۱ کے مفہوم سے ثابت ہے کیونکہ یوم الموعود یہی زمانہ ہے اور مشہود سے مُراد حضرت امام الزمان مسیح موعود علیہ السلام ہیں اور شاہد وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے جناب ممدوح کی صداقت پر گواہی دیں گے اس لئے میں اپنے سچے دل سے خدا تعالیٰ کو حاضر وناظر جان کر یہ گواہی دیتا ہوں کہ بلاشک و شبہ حضرت اقدس میرزا صاحب خدا تعالیٰ کی طرف سے اس زمانہ کے لئے بحیثیت ماموریت منصب امامت پر مشرف ہیں اور جناب کی اطاعت خدا کی خوشنودی کا سبب اور مخالفت اس کے قہر*وغضب کا موجب ہے۔ لہٰذا دنیا کے زیادہ
* (نقل مطابق اصل) ۱ البروج: ۳،۴ (باوجود اس قدر علم کے پھر بھی مخالفت سے نہیں ڈرا)