مَیں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اِس نام کے مستحق نہیں کیونکہ کثرتِ وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ شرط اُن میں پائی نہیں جاتی اور ضرور تھا کہ ایسا ہوتا تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی صفائی سے پوری ہو جاتی کیونکہ اگر دوسرے صلحاء جو مجھ سے پہلے گذر چکے ہیں وہ بھی اسی قدر مکالمہ و مخاطبہ الہٰیہ اور امور غیبیہ سے حصہ پا لیتے تو وہ نبی کہلانے کے مستحق ہو جاتے تو* اِس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی میں ایک رخنہ واقع ہو جاتا اس لئے خدا تعالیٰ کی مصلحت نے ان بزرگوں کو اس نعمت کو پورے طور پر پانے سے روک دیا تا جیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ ایسا شخص ایک ہی ہوگا وہ پیشگوئی پوری ہو جائے۔ اور یاد رہے کہ ہم نے محض نمونے کے طورپرچند پیشگوئیاں اس کتاب میں لکھی ہیں مگر در اصل وہ کئی لاکھ پیشگوئی ہے جن کا سلسلہ ابھی تک ختم نہیں ہوا اور خدا کا کلام اِس قدر مجھ پرنازل ہوا ہے کہ اگر وہ تمام لکھا جائے تو بیس۲۰ جزو سے کم نہیں ہوگا اب ہم اسی قدر پر کتاب کو ختم کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے چاہتے ہیں کہ اپنی طرف سے اس میں برکت ڈالے اور لاکھوں دلوں کو اس کے ذریعہ سے ہماری طرف کھینچے۔ آمین۔ واٰخر دعوانا ان الحمدللّٰہ ربّ العالمین۔ تمّت * خدا کے کلام میںیہ امر قرار یافتہ تھا کہ دوسرا حصہ اس اُمّت کا وہ ہوگا جو مسیح موعود کی جماعت ہوگی۔ اسی لئے خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو دوسروں سے علیحدہ کرکے بیان کیا جیسا کہ وہ فرماتا ہے 33 ۱؂ یعنی اُمّت محمدیہ میں سے ایک اور فرقہ بھی ہے جو بعد میں آخری زمانہ میں آنیوالے ہیں اور حدیث صحیح میں ہے کہ اس آیت کے نزول کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ سلمان فارسی کی پُشت پر مارا اور فرمایا لوکان الایمان معلّقًا بالثریا لنالہ رجلٌ من فارس اور یہ میری نسبت پیشگوئی تھی۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں اس پیشگوئی کی تصدیق کے لئے وہی حدیث بطور وحی میرے پر نازل کی اور وحی کی رو سے مجھ سے پہلے اس کا کوئی مصداق معیّن نہ تھا اور خدا کی وحی نے مجھے معیّن کر دیا۔ فالحمدللّٰہ۔ منہ