آجاتے ہیں کسی مسلمان کا کام نہیں بلکہ ان لوگوں کا کام ہے جو درحقیقت اسلام کے دشمن ہیں۔
اور پھر ایک اور نادانی یہ ہے کہ جاہل لوگوں کو بھڑکانے کے لئے کہتے ہیں کہ اس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے حالانکہ یہ اُن کا سراسر افترا ہے بلکہ جس نبوت کا دعویٰ کرنا قرآن شریف کے رو سے منع معلوم ہوتا ہے ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا گیا صرف یہ دعویٰ ہے کہ ایک پہلو سے میں اُمتی ہوں اور ایک پہلو سے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض نبوت کی وجہ سے نبی ہوں اور نبی سے مراد صرف اس قدر ہے کہ خدا تعالیٰ سے بکثرت شرف مکالمہ و مخاطبہ پاتا ہوں بات یہ ہے کہ جیسا کہ مجدّد صاحب سر ہندی نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ اگرچہ اس اُمت کے بعض افراد مکالمہ و مخاطبہ الہٰیہ سے مخصوص ہیں اور قیامت تک مخصوص رہیں گے لیکن جس شخص کو بکثرت اس مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف کیا جائے اور بکثرت امور غیبیہ اس پر ظاہر کئے جائیں وہ نبی کہلاتا ہے۔ اب واضع ہو کہ احادیث نبویہ میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت میں سے ایک شخص پیدا ہوگا جو عیسیٰ اور ابن مریم کہلائے گا۔ اور نبی کے نام سے موسوم کیا جائے گا یعنی اس کثرت سے مکالمہ و مخاطبہ کا شرف اس کو حاصل ہوگا اور اس کثرت سے امور غیبیہ اس پر ظاہر ہوں گے کہ بجز نبی کے کسی پر ظاہر نہیں ہو سکتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے 3 ۱ یعنیخدا اپنے غیب پر کسی کو پوری قدرت اور غلبہ نہیںؔ بخشتا جو کثرت اور صفائی سے حاصل ہو سکتا ہے بجز اُس شخص کے جو اس کا برگزیدہ رسول ہو اور یہ بات ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس قدر خدا تعالیٰ نے مجھ سے مکالمہ و مخاطبہ کیا ہے اور جس قدر امور غیبیہ مجھ پر ظاہر فرمائے ہیں تیر۱۳۰۰ہ سو برس ہجری میں کسی شخص کو آج تک بجز میرے یہ نعمت عطا نہیں کی گئی۔ اگر کوئی منکر ہو تو بارثبوت اس کی گردن پر ہے۔
غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس اُمت میں سے مَیں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس اُمّت میں سے گزر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے