تقویٰ کا تخم ان کے اندر ہوتا تو یہ لوگ سوچتے کہ جن پیشگوئیوں پر انہوں نے اعتراض کیا ہے وہ تو صرف دو تین ہیں اور ان کے مقابل پر وہ پیشگوئیاں جو اپنی سچائی دکھلا کر ان کے مُنہ پر طمانچے مار رہی ہیں وہ توسینکڑوں بلکہ ہزاروں اور لاکھوں تک پہنچ گئی ہیں یہ تو سوچنے کا مقام تھا کہ کثرت کسؔ طرف *ہے کیا وہ اس بات کا ثبوت دے سکتے ہیں کہ جس قسم کا کوئی اعتراض انہوں نے ان پیشگوئیوں کی نسبت یا کسی اجتہادی غلطی کی نسبت کیا ہے دوسرے انبیاء کی پیشگوئیوں میں اُن کی نظیر نہیں پائی جاتی؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ قطع نظر دوسرے انبیاء کے خود ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو سب نبیوں سے افضل اور اعلیٰ اور خاتم الانبیاء تھے اس قسم کی اجتہادی غلطی سے محفوظ نہیں رہے کیا حدیبیہ کا سفر اجتہادی غلطی نہ تھا کیا یمامہ یا ہجر کو اپنی ہجرت کا مقام خیال کرنا اجتہادی غلطی نہ تھی کیا اور بھی اجتہادی غلطیاں نہ تھیں جن کا لکھنا موجب تطویل ہے پس اس قسم کے کمینے حملے جن کے دائرہ کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی
* ہم نے اس کتاب میں ۱۸۷ نشان خدا تعالیٰ کے لکھے ہیں یہ وہ نشان ہیں جو کوئی ظنی امر نہیں بلکہ اکثر یہ پیشگوئیاں پیش از وقوع اخباروں اور کتابوں میں شائع کی گئی ہیں اور ہزاروں ان کے گواہ اب تک زندہ موجود ہیں اور یہ تمام وہ امور ہیں جو انسانی طاقت سے برتر ہیں۔ اگر یہ تمام ذخیرہ خدا کے نشانوں اور پیشگوئیوں کا کسی پہلے اسرائیلی نبی کی کتابوں میں تلاش کیا جائے تو میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ کسی اسرائیلی نبی کی سوانح میں اس کی نظیر نہیں ملے گی۔ اور اگر فرض بھی کر لیں تو ان نشانوں کی رویت کے گواہ کہاں سے میسر آئیں گے اور صرف خبر معاینہ کے مساوی نہیں ہو سکتی۔ عیسائی بار بار حضرت مسیح کے مُردے زندہ کرنے کے معجزات پیش کرتے ہیں مگر ثبوت ایک کا بھی نہیں۔ نہ کسی مُردہ نے آکر عالم آخرت کی سرگزشت سنائی یا بہشت دوزخ کی حقیقت ظاہر کی یا دوسرے جہان کے چشم دید عجائبات کے بارے میں کوئی کتاب شائع کی یا اپنی شہادت سے فرشتوں کے وجود کا ثبوت دیا بلکہ مُردوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو روحانی یا جسمانی طور پر مُردوں کی مانند تھے۔ پھر گویا دعا کے ذریعہ سے نئی زندگی پائی۔ یہی حال حضرت عیسیٰ کے پرندے بنانے کا ہے۔ اگر وہ سچ مچ پرندے بناتے تو ایک دنیا اُن کی طرف اُلٹ پڑتی اور پھر کیوں صلیب تک نوبت پہنچتی اور کیا ممکن تھا کہ عیسائی لوگ جو حضرت عیسیٰ کے خدا بنانے پر حریص ہیں وہ ایسے بڑے خدائی نشان کو چھوڑ دیتے بلکہ وہ تو ایک تنکہ کا پہاڑ بنا دیتے۔ اِس سے ظاہر ہے کہ یہ واقعہ جو قرآن شریف میں مذکور ہے اپنے ظاہری معنوں پر محمول نہیں بلکہ اس سے کوئی خفیف امر مراد ہے جو بہت وقعت اپنے اندر نہیں رکھتا۔ منہ