ٹانگ مخفی رکھ کر دوسری ٹانگ پیش کر دیتے ہیں اور دیدہ و دانستہ لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ اِس پیشگوئی کی دوشاخیں تھیں ایک شاخ احمد بیگ کی نسبت اور دوسری احمد بیگ کے داماد کی نسبت۔ سو احمد بیگ پیشگوئی کے مطابق میعاد کے اندر فوت ہو گیا اور اس کے مرنے سے اس کے وارثوں کے دلوں کو بہت صدمہ پہنچا اور خوف سے بھر گئے اور یہ تو انسانی سرشت میں داخل ہے کہ جب دو شخص ایک ہی بلا میں(جو وارد ہونیوالی ہو) گرفتار ہوں اور ایک اُن میں سے اس بلا کے نزول سے مر جائے تو جو شخص ابھی زندہ ہے وہ اور اُس کے وارث سخت خوف اور اندیشہ میں پڑ جاتے ہیں چونکہ یہ پیشگوئی شرطی تھی* جیسا کہ آتھم کی پیشگوئی شرطی تھی اِس لئے جب احمد بیگ کے مرنے سے وہ لوگ سخت خوف اور اندیشہ میں پڑ گئے اور دعائیں کیں اور صدقہ و خیرات بھی کیا اور بعض کے خط عجز و نیاز کے بھرے ہوئے میرے پاس آئےؔ جو اب تک موجود ہیں تو خدا تعالیٰ نے اپنی شرط کے پورا کرنے کے لئے اس پیشگوئی میں بھی تاخیر ڈال دی مگر افسوس تو یہ ہے کہ یہ لوگ جو احمد بیگ کے داماد کی نسبت جا بجا شور مچاتے ہیں اور صدہا رسالوں اور اخباروں میں اس کا ذکر کرتے ہیں۔ کبھی ایک دفعہ بھی شرافت اور راست گوئی کے لحاظ سے پورے طور پر پیشگوئی کا ذکر نہیں کرتے اور کبھی کسی رسالہ میں نہیں لکھتے کہ اس پیشگوئی کی دو شاخیں تھیں ایک شاخ ان میں سے میعاد کے اندر پوری ہو چکی ہے یعنی احمد بیگ کی موت بلکہ ہمیشہ اور ہر محل اور ہر موقع اور ہر مجلس میں اور ہر رسالہ اور ہر اخبار میں احمد بیگ کے داماد کو ہی روتے ہیں اور جو مر گیا اُس کو نہیں روتے یہ شرافت اور دیانت اس زمانہ کے مولویوں کے ہی حصہ میں آگئی ہے۔ * اس پیشگوئی میں شرطی الہام یہ تھا جو اُسی زمانہ میں چھپ کر شائع ہو چکا ہے۔ ایّتھا المرأۃ توبی توبی فان البلاء علٰی عقبک یعنی اے عورت توبہ کر توبہ کر کیونکہ بلاتیری لڑکی اور لڑکی کی لڑکی پر نازل ہونے والی ہے پس اس کی لڑکی پر تو بلا نازل ہوئی کہ اُس کا خاوند مرزا احمد بیگ مر گیا لیکن احمد بیگ کی وفات کے بعد بوجہ خوف اور دعا اور صدقہ خیرات کے لڑکی کی لڑکی اس بلا کے نزول سے اس وقت تک بچائی گئی جو خدا تعالیٰ کے علم میں ہے۔منہ